مقتدی کے تشہد مکمل کرنے سے پہلے امام کا کھڑا ہونا

مقتدی کے تشہد مکمل کرنے سے پہلے امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا تو مقتدی کیا کرے؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر امام قعدہ اولیٰ میں تشہد پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا  تو کیا مقتدی بھی امام کے ساتھ کھڑا  ہو جائے یا  تشہد مکمل کرے ؟اگر مقتدی  قصداً   تشہد آدھا  چھوڑ کر امام کے ساتھ  ہی کھڑا ہوگیا تو ایسے مقتدی کی نماز کا کیا حکم ہوگا ؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مقتدی پر مکمل تشہد پڑھنا واجب ہے اگر چہ امام تشہد مکمل کرکے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے، لہٰذا اگر مقتدی جان بوجھ کر تشہد چھوڑ کر امام کے ساتھ تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس پر یہ نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہوگی، اس لیے کہ جان بوجھ کر ترک ِواجب کا حکم یہی ہے کہ نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہوجاتی ہے۔

شریعت مطہرہ کے قواعد کے مطابق نماز کے فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی پیروی کرنا واجب ہے، لیکن اگر امام کی پیروی کرنے میں کسی واجب کا ترک لازم آتا ہو، تو ایسی صورت میں مقتدی کو حکم ہوتا ہے کہ وہ پہلے اس واجب کو ادا کرے، پھر امام کی پیروی کرے، اگرچہ اس واجب کو ادا کرکے امام دوسرے رکن میں چلا گیا ہو۔ چنانچہ  رد المحتار  میں ہے:

”ان متابعة الامام في الفرائض والواجبات من غير تاخير واجبة، فا ن عارضها واجب لا ينبغي ان يفوته  بل ياتي به ثم يتابع“

ترجمہ: فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی متابعت واجب ہے، اگر امام کی متابعت کرنے میں کسی واجب کا ٹکراؤ ہو، تو (مقتدی)اس واجب کو نہ چھوڑے، بلکہ اسے ادا کرے، پھر امام کی متابعت کرے۔   (رد المحتار، جلد 1، صفحہ 470، طبع: بیروت )

بہار شریعت میں صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ” جو چیزیں فرض و واجب ہیں مقتدی پر واجب ہے کہ امام کے ساتھ انہيں ادا کرے، بشرطیکہ کسی واجب کا تعارض نہ پڑے اور تعارض ہو تو اسے فوت نہ کرے بلکہ اس کو ادا کرکے متابعت کرے۔“ ( بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 519، طبع: مکتبۃ المدینہ ) 

  اور چونکہ تشہد بھی واجب ہے ، لہذا مقتدی پر لازم ہے کہ  تشہد مکمل پڑھ کر امام کی پیروی کرے اگر چہ امام تشہد مکمل کرکے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے۔ تنویر الابصار و در مختار میں ہے :

” (لو رفع الامام )۔۔۔ لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه  بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز“

یعنی: اگر مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے ہی  امام تیسری رکعت  کے لئے کھڑا ہوگیا تو مقتدی امام کی متابعت نہ کرے  بلکہ تشہد مکمل پڑھے ، اس لئے کہ تشہد  واجب ہے اور اگر تشہد مکمل نہیں کیا، تو جائز ہے ۔

(ولو لم يتم جاز) کے تحت رد المحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

”أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده "ح"“

یعنی:  کراہت تحریمی کے ساتھ نماز درست ہوجائے گی ، جیساکہ حلبی میں  اس کا افادہ کیا۔  (تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار، جلد1، صفحہ 496، طبع: بیروت ) 

سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا: ”اگر مقتدی ابھی التحیات پوری نہ کرنے پایا تھا کہ امام کھڑا ہوگیا یا سلام پھیر دیا تو مقتدی التحیات پوری کرلے یا اتنی ہی پڑھ کر چھوڑ دے؟آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب فرماتے ہیں: ”ہر صورت میں پوری کرلے اگرچہ اس میں کتنی ہی دیر ہوجائےلان التشھد واجب(کیونکہ تشہد واجب ہے )۔ (فتاوی رضویہ، جلد 07، صفحہ 52، طبع: رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

 نماز دوبارہ پڑھنے کے متعلق فتاوی امجدیہ میں ہے:

”ان الاعادۃ علی المقتدی فی صورۃ العمد“

یعنی : جان بوجھ کر واجب ترک کرنے کی صورت میں مقتدی  پر بھی نماز لوٹانا واجب ہے۔ (فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 275، طبع: مکتبہ رضویہ)

وقار الفتاوی میں مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا: ”امام کے پیچھے اگر مقتدی سے سہواً یا قصداً کوئی واجب چھوٹ گیا مثلاً تشہد نہیں پڑھا تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ”کسی واجب کو قصداً (جان بوجھ کر)امام کے پیچھے چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی اور اگر امام کے پیچھے سہواً(بھول سے)کوئی واجب چھوٹ گیا تو پھر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 210، طبع: بزم وقار الدین)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  HAB-0650

تاریخ اجراء:  16ربیع الآخر 1447ھ/10اکتوبر 2025 ء