
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ چار رکعت والی نماز میں امام مسافر اور مقتدی مقیم ہو، تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد تیسری اور چوتھی رکعت میں مقتدی کتنی دیر خاموش کھڑا رہے گا؟ اگر ان رکعتوں میں مقتدی نے قراءت کرلی، تو کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بیان کردہ صورت میں تیسری اور چوتھی رکعت میں مقتدی سورۂ فاتحہ کی مقدار خاموش کھڑا رہے گا۔ ان رکعتوں میں مقیم مقتدی کا قراءت نہ کرنا واجب اور کرلینا مکروہ تحریمی ناجائز و گناہ ہوتا ہے، لہٰذا اگر اس نے قراء ت کرلی، تو اگر بھولے سے کی، تونماز ہوجائے گی، سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا اور اگر جان بوجھ کر یا مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کی، تو نماز واجب الاعادہ ہوگی یعنی اس نماز کو دوبارہ سے پڑھنا واجب ہے۔
اس لئے کہ مقیم مقتدی ان رکعتوں میں لاحق کے حکم میں ہوتا ہے، اور لاحق اپنی بقیہ رکعتوں میں (قراءت کے معاملے میں) مقتدی کے حکم میں، اور مقتدی اگر امام کے پیچھے قراءت کرلے، تو اس کا وہی حکم ہوتا ہے جو اوپر مذکور ہوا، لہٰذا مقیم مقتدی کا بھی یہی حکم ہوگا۔
فتاوی رضویہ میں مقیم مقتدی کے متعلق ہے: ”وہ پچھلی رکعتوں میں کہ مسافرسے ساقط ہیں، مقیم مقتدی لاحق ہے۔۔۔ اور حکم اس کایہ ہے کہ جتنی نمازمیں لاحق ہے، پہلے اسے بے قراء ت اداکرے، یعنی حالت قیام میں کچھ نہ پڑھے، بلکہ اتنی دیرکہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے محض خاموش کھڑا رہے۔“ (فتاوی رضویہ ملتقطاً، ج 07، ص 239، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
لاحق اپنی بقیہ رکعتوں میں مقتدی کے حکم میں ہے، اس حوالے سےمسبوط سرخسی، در مختار، بدائع الصنائع، حاشیۃ الطحطاوی اورحاشیۃ الشلبی وغیرہ کتب فقہیہ میں ہے،
و اللفظ للبدائع: و أما اللاحق كأنه خلف الامام و لهذا لا قراءة عليه لا سهو عليه كما لو كان خلف الامام حقيقۃ
بہر لاحق تو گویا یہ امام کے پیچھے یعنی مقتدی ہے،اسی وجہ سے اس پر قراءت اور سجدہ سہو نہیں، جیسا کہ حقیقتاً مقتدی ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ (مسبوط سرخسي، ج 01، ص 229،دار المعرفة - بيروت، لبنان ) (در مختار مع رد المحتار، ج 01، ص 595،دار الفكر، بيروت) (بدائع الصنائع، ج 01، ص 247،دار الکتب العلمیہ بیروت) (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، ص 309، دار الكتب العلمية بيروت - لبنان) (حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، ج 01، ص 214، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)
بہار شریعت میں ہے: ”لاحق مدرک کے حکم میں ہے کہ جب اپنی فوت شدہ پڑھے گا، تو اس میں نہ قراء ت کریگا، نہ سہو سے سجدۂ سہو کریگا۔“ (بہا رشریعت، ج 01، ص 589،مکتبۃ المدینۃ کراچی)
شرح الوقایۃ میں ہے:
فاللاحق و إن لم يكن له إمام حقيقة، فله إمام حكما، فإنه التزم أن يؤدي جميع صلاته خلف الامام، فإذا سبقه الحدث فتوضأ وبنا، يجعل كأنه خلف الامام حتى يثبت له أحكام المقتديين كحرمة القراءة
لاحق كا اگرچہ حقیقتاً امام نہیں ہوتا، لیکن حکماً امام ہوتا ہے، کیونکہ اس نے مکمل نماز امام کے پیچھے ادا کرنے کا التزام کیا تھا، لہذا جب اس کو حدث لاحق ہوا، اور اس نے وضو کرکے بِنا کی، تو اسے اب بھی امام کے پیچھے قرار دیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کے لئے مقتدیوں والے احکام ثابت ہوں گے، جیسا کہ قراءت کا مکروہ تحریمی ہونا۔ (شرح الوقایۃ لصدر الشريعة، ج 02، ص 133، دار الوراق - عمان، الأردن)
اور مقتدی اگر امام کے پیچھے قراءت کرلے تو کیا حکم ہوگا؟ اس کی تفصیل کے حوالے سےدر مختار میں ہے:
و انصات المقتدی
اور مقتدی کا خاموش رہنا واجب ہے۔
مذکورہ عبارت کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:
فلو لم ینصت و قرأ یجب علیہ اعادۃ الصلاۃ، و لا یتأتی فی حقہ السھو ان قرأ سھوا؛ لانہ لا سھو علی المقتدی، حلبی
لہذا اگر مقتدی خاموش نہ رہا اور اس نے قراءت کی، تو اس پر نماز کو دوہرانا واجب ہے، اور اگر اس نے بھول کر قراءت کی، تو اس کے حق میں سہو کا حکم نہیں ہوگا، کیونکہ مقتدی پر اپنے سہو سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، حلبی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، ج 02، ص 147، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
فلو قرأ خلف إمامه كره تحريما ولا تفسد في الأصح و لا يلزمه سجود سهو لو قرأ سهوا، لأنه لا سهو على المقتدي، و هل يلزم المتعمد الاعادة؟ جزم ح و تبعه ط بوجوبها
لہٰذا اگر مقتدی نے امام کے پیچھے قراءت کی، تو یہ مکروہ تحریمی ہوگا، اور اصح قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوگی، اور مقتدی نے اگر بھول کر قراءت کی، تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہو گا، کیونکہ مقتدی پر اپنے بھولنے کے سبب سجدہ سہو لازم نہیں، اور کیا جان بوجھ کر قراءت کرنے والے پر اعادہ لازم ہوگا؟ تو ح (یعنی امام حلبی) نے اعادے کے واجب ہونے پر جزم فرمایا ہےاور ط (یعنی علامہ طحطاوی) نے اعادے کے واجب ہونے میں ان کی اتباع کی ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 01، ص 470، دار الفكر بيروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0547
تاریخ اجراء: 28 رمضان المبارک 1446ھ / 29 مارچ 2025ء