
فتوی نمبر:HAB-0528
تاریخ اجراء: 02رمضان المبارک1446ھ/03مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ رمضان المبارک میں اگر کوئی مسافر ٹرین میں سفر کر رہا ہو، تو کیا اسے سفر کے دوران بھی تراویح ادا کرنی ہوں گی؟ یا ایسی صورت میں تراویح چھوڑنے کی اجازت ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
تراویح سنت مؤکدہ ہے اورمسافر کے لیے سنن مؤکدہ ادا کرنے سے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ اگرامن و قرار کی حالت ہو یعنی سیر فی الحال جاری نہ ہو، مسافر سواری سے اتر کر کہیں ٹھہرا ہوا ہو ،تو ایسی صورت میں سنن ادا کرے ، اور اگرخوف و فرار کی حالت ہو یعنی فی الحال سیرجاری ہو،مسافر فی الوقت سواری میں سوار منزل کی جانب رواں دواں ہو،تو ایسی صورت میں سنن چھوڑ سکتا ہے، لہٰذا سفر کے دوران چلتی ٹرین میں تراویح چھوڑ نے کی اجازت ہے،تاہم ادا کرنا ہر حال میں افضل ہے ۔
تراويح سنت مؤكده ہےاوراس کی جماعت سنت کفایہ ہے،مراقی الفلاح و در مختار میں ہے:’’(التراويح سنة) مؤكدة ۔۔۔ (والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح‘‘ترجمہ:تراویح سنت مؤکدہ ہے۔۔۔اور تراویح باجماعت اصح قول پر سنت علی الکفایہ ہے۔ (در مختار مع رد المحتار،ج2،ص43، 45، دار الفکر)
جب تراویح سنت مؤکدہ ہے، تو مسافر کےلیے سفر میں اس کا وہی حکم ہوگا جو دیگر سنن مؤکدہ کا ہوتا ہے، اور مسافر کے سنن مؤکدہ ادا کرنے کے متعلق مشائخ کا اختلاف ہے اور قول ِ مختار یہ ہے کہ امن و قرار کی حالت میں ادا کرے اور خوف و فرار کی حالت میں چھوڑنے کی مکمل رخصت۔
بدائع الصنائع ، مبسوط للسرخسی اور ہندیہ میں ہے،والنص للھندیۃ:’’ولا قصر في السنن كذا في محيط السرخسي، وبعضهم جوزوا للمسافر ترك السنن والمختار أنه لا يأتي بها في حال الخوف ويأتي بها في حال القرار والأمن، هكذا في الوجيز للكردري‘‘ ترجمہ: سنن میں قصر نہیں،اسی طرح محیطِ سرخسی میں ہے، بعض مشائخ نے مسافر کو سنن ترک کرنے کی اجازت دی، اور مختار یہ ہے کہ خوف کی حالت میں چھوڑ دے اور امن وقرار کی حالت میں ادا کرے ۔’’وجیز للکردری ‘‘میں اسی طرح ہے۔(الفتاوی الھندیہ،ج1، ص129،دار الفکر)
در مختار میں ہے:’’(ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها هو المختار لأنه ترك لعذر‘‘ترجمہ: مسافر سنن کو ادا کرے گا اگر امن وقرار کی حالت میں ہو اور اگر خوف و فرار کی حالت میں ہو تو سنن ترک کرسکتا ہے، یہی مختار ہے، کیونکہ اس کا ترک کرنا عذر کی وجہ سے ہے۔(در مختار مع رد المحتار،ج2،ص131، دار الفکر)
امن و قرار سے مراد نزول و مکث یعنی سواری سے اتر کر کہیں ٹھہرے ہوئے ہونے کی حالت ہے اور خوف و فرار سے مراد سیر کی حالت یعنی سواری میں بالفعل سفر جاری ہونا،جیسا کہ در مختار کی مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:’’وقال الهندواني: الفعل حال النزول والترك حال السير۔۔۔ قال في شرح المنية:والأعدل ما قاله الهندواني ۔اهـ قلت: والظاهر أن ما في المتن هو هذا وأن المراد بالأمن والقرار النزول وبالخوف والفرار السير ‘‘ ترجمہ:ہندوانی نے کہا :کہیں ٹھہرے ہوئے ہونے کی حالت میں سنن ادا کرے اور سیر کی حالت میں چھوڑ سکتا ہے۔۔۔شرح المنیہ میں فرمایا:اعد ل ہندوانی کا قول ہے :۔ میں کہتا ہوں: ظاہر یہی ہے کہ متن میں یہی ہندوانی کا قول مذکور ہے ، اور امن و قرارسے مراد سواری سے اتر کر کہیں ٹھہرے ہوئے ہونا اور خوف و فرار سے مراد سیر کا جاری ہونا ہے ۔(در مختار مع رد المحتار،ج2،ص131، دار الفکر)
علامہ شامی نے جسے ظاہر کہا وہی حق ہے،جیساکہ حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق ،بحر الرائق،اورمراقی الفلاح سے اس کی تائید ہوتی ہے،مراقی الفلاح کی عبارت ہے:’’فلا قصر ۔۔۔ في السنن فإن كان في حال نزول وقرار وأمن يأتي بالسنن وإن كان سائرا أو خائفا فلا يأتي بها وهو المختار‘‘ ترجمہ:سنن میں قصر نہیں، تو اگر امن و قرار کی حالت میں ہو تومسافر سواری سے اتر کر سنن ادا کرے اور اگر سواری میں سیر کررہا ہو یا خوف کی حالت ہو تو سنن کو ترک کرسکتا ہے، یہی مختار ہے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،ص161، المکتبۃ العصریۃ)
بہار شریعت میں ہے:’’ سُنّتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں گی، البتہ خوف اور رواروی کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں۔‘‘(بھار شریعت،ج1،حصہ4،ص744،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
البتہ چاہے حالت ِ سیر ہو یا حالت قرار، سنن ادا کرنا افضل ہے اور ترک کسی حال میں گناہ واساءت نہیں ،علامہ چلپی تبیین کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:’’وفي المبسوط لا بأس بترك السنن، وهذا يدل على أن الفعل أفضل‘‘ ترجمہ:مبسوط میں ہے کہ سنن ترک کرنے میں حرج نہیں اور یہ اس پر دلیل ہے کہ ادا کرنا افضل ہے۔(تبیین الحقائق مع حاشیہ شلبی،ج1،ص211،دار الكتاب الإسلامي)
فتح القدیر میں ہے:’’ لا نقول لا يتنفل على الدابة في السفر بل الكلام في ثبوت سنية المعهودة حتى يلزمه إساءة بالترك فهذا هو المنفي، فإن الشارع لما أسقط شطر الفرض عنه تخفيفا عليه للسفر فمن المحال أن يطلب منه غيره بحيث يلزمه إساءة بتركه‘‘ترجمہ:ہم یہ نہیں کہتے کہ سفر کے دوران سواری میں نفل نہ پڑھے، بلکہ کلام سنت کے معروف معنی میں ہونے کے ثبوت میں ہے ،حتی کہ اس کے ترک سے اساءت لازم آئے، تو یہ معنی منفی ہے ، کیونکہ شارع نےجب سفر میں تخفیف کرتے ہوئے فرض کا آدھا حصہ ساقط کردیا، تو محال ہے کہ اس سے اور نماز کا مطالبہ کرے اس طرح کہ اسے ترک کرنے سے اساءت لازم آئے۔(فتح القدیر،ج1،ص481، دار الفكر، لبنان)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم