نفل کی تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے فرض قعدے کا واجب میں تبدیل ہو جانا

نفل کی تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے فرض قعدے کا واجب میں تبدیل ہو جانا

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3750

تاریخ اجراء: 20 شوال المکرم 1446 ھ/19 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نماز کے احکام میں  واجبات کے بیان میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ نفل کا ہر قعدہ قعدۂ اخیرہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص بھول کر  نفل کی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا اور   اس رکعت کا سجدہ  بھی کر لیا،  تو اب یہ قعدہ فرض کی بجائے واجب شمار ہو گا۔ تو اس کی کیا وجہ ہے کہ ایک فرض کام واجب ہو گیا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   قعدہ اخیرہ نمازسے نکلنے کے لیے ہوتاہے اور نوافل اگرچہ دو سے زیادہ کی نیت سے شروع کیے جائیں تب بھی شروع کرتے وقت دو ہی شروع ہوتے ہیں، اب اگر وہ دوسری رکعت پر سلام پھیر دیتا ہے تو واضح ہوجائے گاکہ یہ قعدہ نمازسے نکلنے کے لیے تھا لہذا یہ قعدہ اخیرہ بن جائے گا اور اگر چار رکعات کی نیت سے نوافل شروع کرنے کی صورت میں دوسری رکعت پرقعدہ نہ کرےبلکہ تیسری کے لیے کھڑاہوجائے تو اس سے واضح ہوگا کہ دوسری رکعت کا قعدہ نماز سے نکلنے کے لیے نہیں تھا، اس لیے وہ قعدہ اخیرہ  شمار نہیں ہوگا۔

   لیکن یہ یادرہے کہ! اگر صرف دورکعت کی  نیت سے نفل نمازشروع کی تھی تواس صورت میں دوسری رکعت پر قعدہ اخیرہ فرض ہوگا، اس صورت میں اگرتیسری کے لیے کھڑاہوجائے توحکم ہے کہ واپس آجائے ورنہ نماز فاسد ہوجائے گی۔

   رد المحتار علی الدر المختار میں ہے

   "القعدة إنما فرضت للخروج من الصلاة، فإذا قام إلى الثالثة تبين أن ما قبلها لم يكن أو ان الخروج من الصلاة فلم تبق القعدة فريضة"

   ترجمہ: قعدہ ( اخیرہ ) نماز سے نکلنے  کے لیے فرض کیا گیا ہے، تو جب کوئی شخص (نفل کی ) تیسری رکعت کی طرف چلا  گیا، تو اب  یہ بات واضح ہو گئی کہ اس سے پہلے کا حصہ ( دو رکعت کے بعد کا قعدہ)نماز  سے نکلنے کا وقت نہیں تھا، تو اب وہ قعدہ فرض نہیں رہا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 465، دار الفکر، بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے

   ”كان القياس في المتنفل بالأربع إذا ترك القعدة الأولى أن تفسد صلاته، و هو قول محمد؛ لأن كل شفع لما كان صلاة على حدة كانت القعدة عقيبه فرضا كالقعدة الأخيرة في ذوات الأربع من الفرائض، إلا أن في الاستحسان لا تفسد و هو قول أبي حنيفة، و أبي يوسف؛ لأنه لما قام إلى الثالثة قبل القعدة فقد جعلها صلاة واحدة شبيهة بالفرض، و اعتبار النفل بالفرض مشروع في الجملة؛ لأنه تبع للفرض فصارت القعدة الأولى فاصلة بين الشفعين و الخاتمة هي الفريضة فأما الفاصلة فواجبة ۔۔۔ لأن القعدة إنما صارت فرضا لغيرها وهو الخروج فإذا قام إلى الثالثة وصارت الصلاة من ذوات الأربع لم يأت أوان الخروج فلم تبق القعدة فرضا“

   ترجمہ: چار رکعت نفل ادا کرنے والا جب قعدہ اولی چھوڑ دے تو اُس کے حق میں قیاس تو یہ تھا کہ اُس کی نماز فاسد ہو جائے، امام محمد کا یہ ہی قول ہے۔ کیونکہ (نفل کا) ہر شفعہ جب علیحدہ نماز ہے تو ہر شفعہ کے بعد قعدہ فرض ہے جس طرح قعدہ اخیرہ چار رکعت والے فرائض میں فرض ہے۔ مگر استحسانا نماز فاسد نہیں ہو گی، یہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کا قول ہے۔ اس لئے کہ جب وہ قعدہ سے پہلے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا تو اُس نے اُسے ایک ایسی نماز بنا دیا جو فرض کے مشابہ ہے۔ اور نفل کا قیاس کرنا فرض پر من وجہ مشروع . ہے اس لئے کہ وہ فرض کے تابع ہے تو ایسی صورت میں قعدہ اولی دوشفعوں کے مابین فاصل ہو گیا۔ اور فرض قعدہ آخری ہوتا ہے اور جو قعدہ  فاصل ہو وہ واجب ہوتا ہے۔۔۔ کیونکہ قعدہ اخیرہ صرف نماز سے نکلنے کے لئے فرض ہوا ہے لیکن جب وہ شخص تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور حال یہ ہے کہ نماز چار رکعتی ہے تو ابھی نماز سے نکلنے کا وقت نہیں آیا لہذا قعدہ فرض نہیں رہا۔ (بدائع الصنائع، ج 1، ص 292، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے

   ”رجل صلى أربع ركعات تطوعا ولم يقعد على رأس الركعتين عامدا لا تفسد صلاته استحسانا  و هو قولهما و في القياس تفسد و هو قول محمد رحمه اللہ تعالى و لو صلى التطوع ثلاث ركعات و لم يقعد على رأس الركعتين الأصح أنه تفسد صلاته۔۔ و ذكر الإمام الصفار في نسخته من الأصل أنه إن لم يقعد حتى قام إلى الثالثة على قياس قول محمد - رحمه الله تعالى - يعود و يقعد و عندهما لا يعود و يلزمه السهو. كذا في الخلاصة، هذا إذا نوى أربعا فإن لم ينو أربعا و قام إلى الثالثة يعود إجماعا و تفسد إن لم يعد كذا في البرجندي“

   ترجمہ: کسی شخص نے  چار رکعات نفل کی نیت سے نماز شروع کی اور دوسری رکعت پر  جان بوجھ کر قعدہ نہیں کیا ، تو استحسان کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوگی  اور یہی شیخین علیھما الرحمۃ  کا قول ہے  اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز فاسد ہو جائے گی اور یہ امامِ محمد علیہ الرحمۃ کا قول ہے اور اگر تین رکعات پڑھیں اور دوسری پر قعدہ نہیں کیا، تو اصح قول کے مطابق نماز فاسد ہو جائے گی۔ اور امام صفار نے اپنے نسخہ میں بحوالہ اصل ذکر کیا کہ اگر اس نے قعدہ نہیں کیا حتی کہ تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا تو امام محمد علیہ الرحمۃ کے قول پر قیاس کرتے ہوئے وہ لوٹے گا اور قعدہ کرے گا اور شیخین کے نزدیک نہیں لوٹے گا اور اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا، جیسا کہ خلاصہ میں ہے،  یہ اختلاف اس صورت میں ہے، جب کسی نے چار رکعت کی نیت سے نماز شروع کی تھی، لیکن اگر کسی نے چار رکعت کی نیت نہیں کی (بلکہ دو رکعت کی نیت سے نماز شروع کی) اور قعدہ کیے بغیر تیسری کے لیے کھڑا ہو گیا، تو بالاجماع واپس لوٹے گا، اوراگر نہیں لوٹا  تو نماز فاسد ہو جائے گی، اسی طرح  برجندی میں ہے۔ (فتاوی ہندیہ، ج 1، ص 113، دار الفکر، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے "نفل نماز شروع کی اگرچہ چار کی نیت باندھی جب بھی دو ہی رکعت شروع کرنے والا قرار دیا جائے گا کہ نفل کا ہر شفع (یعنی دو رکعت) علیحدہ علیحدہ نماز ہے۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 4، ص 669، مکتبۃ المدینہ)

   بہار شریعت میں ہے "چار رکعت نفل پڑھے اور قعدۂ اولیٰ فوت ہوگیا بلکہ قصداً بھی ترک کر دیا تو نماز باطل نہ ہوئی اور بھول کر تیسری رکعت کے ليے کھڑا ہوگیا تو عود نہ کرے اور سجدۂ سہو کرلے نماز کامل ادا ہوگی، اگر تين رکعتيں پڑھيں اور دوسری پر نہ بيٹھا تو نماز فاسد ہوگی اور اگر دو رکعت کی نيت باندھی تھی اور بغير قعدہ کيے تيسری کے ليے کھڑا ہوگيا تو عود کرے ورنہ فاسد ہو جائے گی۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 4، ص 667، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم