نماز میں درود نہ پڑھنے سے نماز ہوگی یا نہیں؟

نماز میں درود نہ پڑھنے سے نماز ہوجائے گی؟ حدیث پاک کی شرح

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-9241

تاریخ اجراء:15 رجب1446 ھ/ 16 جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ نماز  کے آخری قعدہ میں تشہد کے بعد  درود پاک پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  ایک شخص کا کہنا ہے کہ فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور دلیل میں ایک حدیث بیان کرتا ہے کہ  حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے نماز میں درود پڑھنے کا حکم دیا ہےاور فرمایا جو مجھ پر درود نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ لہذا دورد پڑھنا فرض ہے،بغیر پڑھے نماز نہیں ہوگی۔ درست رہنمائی بیان فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز کے آخری قعدہ میں تشہد کے بعد درود پاک پڑھنا  احناف کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے،فرض یا واجب نہیں۔ بلاعذر ایک  بار  چھوڑنا اساءت اور  عادت بنا لینا گناہ ہے۔ یہی مؤقف امام مالک، امام احمد بن حنبل اور  جمہور فقہائے کرام کا ہے۔

   سوال میں مذکور روایت سنن ابن ماجہ، التمہید لابن عبد البر، معرفۃ السنن و الآثار، سنن دار قطنی، المستدرک للحاکم  علی الصحیحین  میں ذکر کی گئی ہے اور ان تمام  کتب میں ایک ہی سند سے ذکر کی گئی ہےاور اس میں ایک راوی  عبد المہیمن ہے  اور محدثین کے نظر میں یہ  ضعیف، متروک الحدیث اور منکر الحدیث ہے، لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور ضعیف روایت سے احکام شرعیہ کا استدلال  نہیں کیاجاسکتا۔

   نیز یہ کہ اگریہ حدیث بالفرض صحیح بھی ہوتی، تو بھی اس  میں کمالِ ثواب کی نفی ہے، نہ کہ اصل ِنماز کی( یعنی جو شخص نماز میں درود شریف نہیں پڑھے گا اس کی نماز کامل سنت کے مطابق ادا نہیں ہوگی)۔

   نوٹ: مختار اور افضل یہ ہے کہ درود ابراہیمی پڑھا جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود ابراہیمی  پڑھنے کی تعلیم ارشاد فرمائی۔

   جمہور کے نزدیک قعدہ اخیرہ  میں تشہد کے بعد درود ِ پاک پڑھنے کے سنت ہونے کے متعلق فتح القدیر، النہایہ، اللباب، مبسوط سرخسی، التجرید للقدوری،  مراقی الفلاح، نور الایضاح، مجمع الانہر، ملتقی الابحر، الاختیار لتعلیل المختار،  درر الحکام  اور فتح باب العنایہ میں ہے: و اللفظ للآخر: ”(وبعد التشهد) الأخير (يصلي على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وهي سنة عندنا ويسيء تاركها، وليست بواجبة، وعليه الجمهور خلافا للشافعي“ ترجمہ: قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا  ہمارے نزدیک سنت ہے،  اس کا تارک اساءت کا مرتکب  ہوگا، نماز میں درود پڑھنا واجب نہیں ہے  اور یہی جمہور کا مذہب ہے، بخلاف امام شافعی کے۔(فتح باب العنایہ، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 267، دار الارقم، بیروت)

   فتاویٰ امجدیہ میں ہے: ”نماز میں درود شریف پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔“(فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 75، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   بہار شریعت میں ہے: ”سنتیں بعض مؤکدہ ہیں کہ شریعت میں اس پر تاکید آئی، بلاعذر ایک بار بھی ترک کرے، تو مستحق ملامت ہے اورترک کی عادت کرے تو فاسق، مردود الشہادۃ، مستحق نار ہے۔“(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ  662،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   امام مالک کے نزدیک بھی درودِ پاک پڑھنا سنت ہے۔ اس  کے متعلق الاشراف علی نکت مسائل، المعونہ علی مذہب عالم المدینہ  اور مسائل حرب الکرمانی میں ہے: و اللفظ للاول: ”مسألة: الصلاة على النبي صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسنونة و ليست بشرط في صحة الصلاة خلافا للشافعي“ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود پڑھنا سنت ہے، نماز کی صحت کے لئے درود شرط نہیں ہے، بخلاف امام شافعی کے۔(الاشراف علی نکت مسائل، کتاب الصلاۃ، مسئلۃ الصلاۃ علی النبی، جلد 1، صفحہ 252، دار ابن حزم)

   امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک نماز میں دورد پڑھنے کے واجب نہ ہونے کے متعلق المغنی لابن قدامہ حنبلی، الاقناع، الفروع و تصحیح الفروع  اور شرح الزرکشی میں ہے: و اللفظ للاول: ”قال المروذى: قيل لأبي عبد الله. إن ابن راهويه يقول: لو أن رجلا ترك الصلاة على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  في التشهد، بطلت صلاته. قال: ما أجترىء أن أقول هذا و هذا يدل على أنه لم يوجبها.“ ترجمہ: امام  مروذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  :ابو عبد اللہ (امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ) سے کہا گیا کہ   ابن راہویہ  فرماتے ہیں :اگر کوئی شخص تشہد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درود پاک پڑھنا ترک کردے، تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی، آپ نے فرمایا: میں  یہ بات کرنے کی جرات نہیں  کرسکتا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے  درود پڑھنے کو واجب قرار نہیں دیا۔(المغنی لابن قدامہ، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 388، مطبوعہ مکتبۃ القاھرہ)

   درود ابراہیمی پڑھنے کے افضل ہونے کے متعلق رد المحتار، مراقی الفلاح،  درر الحکام، النہایہ اور الاقناع میں ہے: و اللفظ للاول: ”والمختار في صفتها ما في الكفاية و القنية و المجتبى قال: سئل محمد عن الصلاة على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فقال: يقول: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد، وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم و على آل إبراهيم إنك حميد مجيد، و هي الموافقة لما في الصحيحين و غيرهما“ ترجمہ: درود کی صفت میں مختار یہ ہے کہ   وہی پڑھے جو کفایہ ،قنیہ اور مجتبی ٰ میں ہے امام محمد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردرود پڑھنے کے متعلق سوال کیا گیا، تو آ پ نے ارشاد فرمایا : نمازی یہ درود پڑھے اللهم صل على محمد وعلى آل محمد الخ اور یہی درود صحیحین وغیرہ کتب حدیث کے مطابق ہے۔(رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 512، دارالفکر، بیروت)

   سوال کی روایت کی سند سنن ابن ماجہ میں یوں ہے :”عن عبد المهيمن بن عباس بن سهل بن سعد الساعدي، عن أبيه، عن جده، عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم   قال: لا صلاة لمن لا وضوء له۔۔۔ و لا صلاة لمن لا يصلي على النبي“ ترجمہ: حضرت سہل بن  سعد ساعدی  اپنے والد   کے حوالے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں  اور جس نے حضور علیہ السلام  پر درود نہ پڑھا اس کی نماز نہیں۔(سنن ابن ماجہ، ج 1، ص 140، دار احیاء الکتب العربیہ)

عبدالمھیمن راوی پر جرح:

   سنن کبریٰ للبیہقی، التحقیق فی احادیث الخلاف، معرفۃ السنن و الآثار اور المستدرک للحاکم  میں ہے: و اللفظ للاول: ”عبد المھیمن ضعیف لا یحتج بروایاتہ، اسنادہ ضعیف“ ترجمہ: عبد المہیمن  ضعیف ہے اس کی روایات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا اوراس روایت کی سندضعیف ہے۔(سنن کبریٰ للبیھقی، جلد 4، صفحہ  619، مطبوعہ مرکز بحر للبحوث)

   الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، المجروحین لابن حبان، الکامل فی ضعفاء الرجال، اسامی الضعفاء، التاریخ الکبیر للبخاری، الضعفاء الصغیر للبخاری  اور  الضعفاء و المتروکون للنسائی میں ہے: و اللفظ للآخر: ”عبد المھیمن  بن عباس بن سھل متروک الحدیث“ و اللفظ للتاریخ الکبیر :”عبد المھیمن بن عباس منکر الحدیث“ ترجمہ: عبد المہیمن  بن عباس  بن سہل  متروک الحدیث ہے  اور تاریخ کبیر للبخاری میں ہے: عبد المہیمن  بن عباس منکر الحدیث ہے۔(الضعفاء و المتروکون، ص 70، دارالوعی۔ التاریخ الکبیر للبخاری، ج 7، ص 162، النشر و التوزیع)

   ضعیف حدیث سے  احکام میں استدلال نہیں کیا جاسکتا ، اس کےمتعلق فتح المغيث بشرح الفيۃالحديث للعراقی میں ہے:  ”ان الضعيف لايحتج به في العقائد والاحكام“ ترجمہ:  بیشک ضعیف حدیثِ پاک   کو عقائد اور احکام میں دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔(فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي، جلد 1، صفحہ 351، مطبوعہ مكتبة السنہ، مصر)

   تیسیر مصطلح الحدیث میں ہے: ”یجوز عند اھل الحدیث و غیرھم  روایۃ الاحادیث الضعیفۃ و التساھل فی اسانیدھا من غیر بیان ضعفھا بخلاف الموضوع فانہ لا یجوز روایتھا الا مع بیان وضعھا بشرطین : ان لا  تتعلق بالعقائد، کصفات اللہ و ان لا تتعلق بالاحکام الشرعیۃ مما یتعلق بالحلال والحرام یعنی یجوز روایتھا  فی مثل  المواعظ  والترغیب والترھیب و القصص وسما اشبہ  ذلک“ ترجمہ: محدثین وغیرہم کے نزدیک ضعیف احادیث کو ان کا ضعف بیان کیے بغیر  روایت کرنا اور ان کی اسناد میں تساہل   برتنا، دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے،بر خلاف موضوع  احادیث کے کہ ان کا موضوع ہونا بیان کیے بغیر بیان کرنا، جائز نہیں، (پہلی شرط)یہ روایت نہ تو عقائد کے متعلق ہو  جیسے کہ اللہ پاک کی صفات اور(دوسری شرط)  نہ ہی  ان احکام شرعیہ کے متعلق ہو کہ جن کا تعلق حلال و حرام سے ہے یعنی وعظ، رغیب و ترہیب اور واقعات و قصص میں اس کو روایت کرنا، جائز ہے۔(تیسیر مصطلح الحدیث، ص 45۔46، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اگر اس کو صحیح مان بھی لیں، تو یہاں کمال و فضیلت کی نفی ہوگی، نہ کہ اصلِ نماز کی، جیسا کہ التمہید لابن عبد البراور بدائع الصنائع  میں ہے: و اللفظ للاول: ”ان النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قال لا صلاة لمن لم يصل فيها على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  وهذا قد يحتمل من التأويل ما احتمله قوله لا إيمان لمن لا أمانة له ولا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد ونحو هذا مما أريد به الفضل والكمال“ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نبی پر درود نہیں پڑھا  اس کی نماز نہیں، یہ روایت  اسی تاویل کا احتمال رکھتی ہے  جس تاویل کا احتمال یہ حدیث(لا ایمان لمن لا امانۃ لہ اور لا صلاۃ لجار المسجد الا فی المسجد جس میں امانتداری نہیں اس کا  ایمان نہیں اور مسجد کے پڑوسی کی مسجد کے سوا نماز نہیں) رکھتی  ہے  اور اسکی مثل اور احادیث، جن  میں  فضل و کمال مراد لیا گیا ہے۔(التمھید لابن عبد البر، باب النون، جلد 16، صفحہ 196، وزارۃ عموم الاوقاف)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم