
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3697
تاریخ اجراء:25 رمضان المبارک 1446 ھ/ 26 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
نماز میں سجدے سے یا دوسری رکعت سے جب اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو پاؤں کے پنجے پر کھڑے ہوتے ہیں، میرے ایک پاؤں کے پنجے میں درد ہے اگر اس پر زور ڈال کر کھڑی ہوتی ہوں تو شدید درد ہوتا ہے اور کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا، تو کیا میں پاؤں آگے نکال کے کھڑی ہو سکتی ہوں تاکہ پنجے پر زور نہ پڑے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر آپ کو پنجے کےبل کھڑا ہونے میں شدید درد ہوتا ہے اور کھڑا نہیں ہوا جاتا تو جیسےآپ کو سہولت ہو آپ اسی طرح کھڑی ہو سکتی ہیں کہ پنجے کے بل کھڑا ہوناسنت ہے، جس کا بلا وجہ ترک مکروہ تنزیہی ہے جب کہ عذر ہو تو مکروہ بھی نہیں۔
سنن الترمذی میں ہے "عن أبي هريرة، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم ينهض في الصلاة على صدور قدميه" ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پاؤں کے پنجوں کے بَل اٹھتے تھے۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث 288، ج 2، ص 80، مطبوعہ مصر)
در مختار میں ہے ”و یکبر للنھوض علی صدور قدمیہ بلا اعتماد و قعود“ ترجمہ: سجدہ کے بعد اگلی رکعت کے لئے پنجوں کے بَل، بغیر بیٹھے و بغیر سہارا لئے تکبیر کہتے ہوئے کھڑا ہو۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 2، ص 262، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں نماز کی سنتوں کے بیان میں ہے :"جب دونوں سجدے کر لے تو رکعت کے لیے پنجوں کے بل،گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کے اٹھے، یہ سنت ہے، ہاں کمزوری وغیرہ عذر کے سبب اگر زمین پر ہاتھ رکھ کر اٹھا جب بھی حرج نہیں۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 3، صفحہ 530، مکتبۃ المدینہ)
سنت کا بلاعذر ترک مکروہ تنزیہی ہے اور عذر ہو تو مکروہ نہیں، چنانچہ در مختار میں نماز کی ایک سنت (قعدہ میں دو زانوں بیٹھنے) کے متعلق کلام کرتے ہوئے فرمایا: "و کرہ التربع تنزیھا لترک الجلسۃ المسنونۃ بغیر عذر" ترجمہ: بلاعذرنمازمیں چارزانوبیٹھنامکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس میں بیٹھنےکےمسنون طریقےکا ترک ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے ”(قوله لترك الجلسة المسنونة) علة لكونه مكروها تنزيها۔۔۔ (قوله بغير عذر) أما به فلا، لأن الواجب يترك مع العذر فالسنة أولى“ ترجمہ: (مصنف کا قول: اس میں بیٹھنے کے مسنون طریقےکا ترک ہے) یہ چار زانوں بیٹھنے کے مکروہ تنزیہی ہونے کی علت ہے، (مصنف کا قول: بلا عذر) بہرحال اگر عذر ہو تو مکروہ نہیں، کیونکہ عذر کے وقت واجب ترک کرنا جائز ہے تو سنت بدرجہ اولی ترک کی جا سکتی ہے۔(الدر المختار و رد المحتار، ج 2، ص 498، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم