نماز میں سلام کا جواب دینے کا حکم

نماز میں سلام کا جواب دینےکا حکم

مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3757

تاریخ اجراء:22شوال المکرم 1446ھ/21اپریل2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا نماز کے دوران سلام کا جواب دینے سے نماز ٹوٹ جاتی  ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز کے دوران زبان سے سلام کا جواب دینا ، در حقیقت  سلام کرنے والے شخص سے کلام کرنا ہے اور نماز کے دوران کلام کرنا  مفسدات ( نماز کو توڑ دینے والے کاموں ) میں سے ہے، لہذا نماز کے دوران کسی کے سلام کا جواب دینے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔

   صحیح مسلم کی حدیثِ پاک میں ہے

    "عن عبدا للہ  قال«كنا نسلم على رسول الله  صلی ا  للہ تعالی  علیہ وسلم وهو في الصلاة فيرد علينا، فلما رجعنا من عند النجاشي سلمنا عليه فلم يرد علينا. فقلنا: يا رسول اللہ، كنا نسلم عليك في الصلاة فترد علينا؟! فقال: إن في الصلاة شغلا"

   ترجمہ: حضرت  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ  ہم نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اس   حالت میں سلام کرتے تھے   کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے تھے، تو آپ صلی اللہ تعالی  علیہ وسلم ہمیں  سلام کا جواب عطا فرماتے تھے  پھر جب ہم حضرت نجاشی کے پاس سے واپس آئے، تو ہم نے سلام کیا ، مگر رسولِ پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے  ہمیں جواب  عطا نہیں فرمایا ، تو ہم نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ہم آپ  پر نماز  کے دوران سلام عرض کرتے تھے ، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کا جواب عطا فرما دیتے تھے ، تو ارشاد فرمایا : نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم ، جلد 2، صفحہ 71، مطبوعہ دار الطباعۃ العامرہ، الترکیا )   

   اس حدیثِ پاک کے متعلق شرح المصابیح  لابن الملک  میں ہے  وقال:

   ”إن في الصلاة لشغلا؛ أي: بالقراءة والتسبيح والدعاء، وذلك مانع من كلام الناس۔۔۔والأكثر على أن رد السلام باللسان مبطل، وقد كان جائزا في بدء الإسلام ثم حرم

    ترجمہ: اور ارشاد فرمایا کہ نماز میں مشغولیت ہے  یعنی قراءت تسبیح اور دعا وغیرہ  میں مشغولیت ہوتی ہے اور  یہ کلام الناس سے مانع ہے ۔۔۔ اور اکثر علماء  کرام کا یہی موقف ہے کہ  نماز میں زبان سے سلام کا جواب دینا  مفسداتِ نماز میں سے ہے  اور یہ اسلام کے ابتدائی ایام میں جائز تھا ، پھر  حرام ہو گیا۔ ( شرح مصابیح السنہ ، جلد 2، صفحہ 54، مطبوعہ   ادارۃ الثقافۃ الاسلامیہ )

   البحر الرائق میں ہے :

   أن رد السلام مفسد عمدا كان أو سهوا لأن رد السلام ليس من الأذكار بل هو كلام وخطاب والكلام مفسد مطلقا

   ترجمہ: سلام کا جواب دینا مطلقا مفسدِ نماز ہے، خواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر ، کیونکہ سلام کا جواب دینا ذکر نہیں ، بلکہ کلام اور خطاب ہے،جو کہ  مطلقاً  مفسدِ نماز ہے ۔ (البحر الرائق   شرح کنز الدقائق، جلد 2، صفحہ 8، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی  )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم