نماز میں تکبیراتِ انتقالات کہنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟

نماز میں تکبیراتِ انتقالات کہنے کا سنت طریقہ

دارالافتاء اہلسنت(دعوت اسلامی)

سوال

نماز میں تکبیراتِ انتقالات کہنے کا طریقہ کیا ہونا چاہئے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

تکبیرات انتقالات کا سنت طریقہ  یہ ہے کہ ایک رکن سے دوسرے رکن کو جانے کی ابتداء کے ساتھ ﷲ اکبر کا الف شروع ہو اور رکن میں پہنچنے پر اکبر کی راء ختم ہو لہٰذا اگر کسی نے رکوع میں جا کر تکبیر کہی تواس نے خلاف سنت فعل کیا اور اس سے نماز مکروہ تنزیہی ہوتی ہے۔

فتاویٰ رضویہ میں سوال ہوا: ”ایک پیش امام صاحب نماز کی حالت میں جب رکوع سے فارغ ہو کر سمع ﷲ لمن حمدہ کو سجدہ کے قریب جاکر ختم کرکے بوصل ﷲ اکبر کہتا ہے اور جگہ جو اماموں کو دیکھا ہے وہ سمع اللہ لمن حمدہ کو قیام میں ختم کرتے ہیں اور وہاں سے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ کرتے ہیں۔ اب جو امام سجدہ کے قریب سمع ﷲ لمن حمدہ کو ختم کرتا ہے تو مقتدی ربنا لک الحمد کہاں پر کہیں، کھڑے رہیں یا امام کے ساتھ سجدے میں جاکر کہیں، اگر اسی طرح کریں گے تو ان جاہلوں کو عادت پڑجائے گی، اور اب سوال یہ ہے کہ نماز میں کوئی نقصان نہیں ہوگا؟

اس کا جواب دیتے ہوئے امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”سنّت یہ ہے کہ سمع ﷲ کا سین رکوع سے سر اُٹھانے کے ساتھ کہیں اور حمدہ کی "ہ" سیدھا ہونے کے ساتھ ختم، اسی طرح ہر تکبیرِ انتقال میں حکم ہے کہ ایک فعل سے دوسرے فعل کو جانے کی ابتداء کے ساتھ ﷲ اکبرکا الف شروع ہو اور ختم کے ساتھ ختم ہو، امام مذکور جو اس طرح کرتا ہے دو باتیں خلافِ سنت کرتا ہے۔ سمع ﷲ لمن حمدہ کا سجدہ کو جاتے ہوئے ختم کرنا اور سجدہ کو جانے کی تکبیر سجدہ کو جھکنے کی ابتداء سے شروع نہ کرنا، ان وجوہ سے نماز دو کراہتو ں سے مکروہ ہوتی ہے، اسے سمجھا یا جائے کہ خلاف ِسنّت نہ کر۔“(فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 187 ۔ 188، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1927

تاریخ اجراء:13ربیع الاوّل1446ھ/18ستمبر2024ء