نماز میں بنا کرنے کا ثبوت

نماز میں بنا کرنے کا ثبوت

مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3756

تاریخ اجراء:22شوال المکرم 1446ھ/21اپریل2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں     کہ نماز میں بنا  کرنے کا جواز  کہاں سے ثابت  ہے؟ اور  بنا  کس طرح کی  جاتی  ہےمجھے  سمجھ نہیں آرہا ہے  کیونکہ میں نے یہ مسئلہ سنا  ہے کہ    نماز میں تین قدم چلنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ،تو  جس شخص کا  نماز میں وضو ٹوٹ جائے،وہ کس طرح وضو کرکے اپنی نماز کو وہاں سے ہی پڑھے گا حالانکہ وضوکے لیے اسے تین قدم سے زیادہ چلناپڑے گا،جوکہ عمل کثیر ہے اوریہ نمازکے منافی  ہے ؟اس حوالے سے شرعی  رہنمائی فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بلا شبہہ نماز میں لگاتار  تین قدم چلنا عمل کثیر ہے اور اس سے نماز فاسد ہوتی ہے ، لیکن اس سے  وہ صورت خارج ہے کہ جب کسی کا ریح وغیرہ سے  وضو ٹوٹ جائے اور وہ نماز کی اصلاح کی خاطر  وضو کرنے جائے یعنی بنا کی خاطر چلنے کی صورت مستثنیٰ ہے اور یہ استثناء بے دلیل نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان کی وجہ سے  ہے لہذا   نماز میں بنا کرنا خلافِ قیاس  ، احادیث  مبارکہ اور   صحابہ کرام علیہم الرضوان  کے اجماع سے  ثابت ہے ، اگرچہ  عقل  اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ  ایسے شخص کو نماز ہی دوبارہ پڑھنی چاہئے لیکن  چونکہ   نماز میں بنا کرنے کے جواز  پر نص وارد ہوچکی  ہے  تو  اب عقل کو  اس میں کوئی دخل نہیں  ہوگا ۔

   سنن ابن ماجہ میں حدیث پاک منقول  ہے

   " عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصابه قيء أو رعاف أو قلس أو مذي، فلينصرف، فليتوضأ ثم ليبن على صلاته، وهو في ذلك لا يتكلم"

   ترجمہ : حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے  ،آپ فرماتی ہیں  کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ سلم  نے ارشاد فرمایا :  جسے   قے ، نکسیر آئے یا   منہ سے کھانا  باہر نکلے یا مذی بہے  تو وہ  چلا  جائے ، وضو کرے پھر    اپنی نماز پر بنا  کرے    جبکہ اس دوران اس نے کلام نہ کیا ہو ۔ “( سنن ابن ماجہ ، جلد 1 ، صفحہ 385 ، حدیث 1221 ، طبع حلب )

   اسی طرح سنن دار القطنی اور سنن الکبری للبیہقی  میں ہے :

   ” اللفظ للاول :” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  «من قلس أو قاء أو رعف فلينصرف فليتوضأ وليتم على صلاته»

    ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”  جس  کو کھانے کی  یا دوسری چیز کی قے آئے  یا نکسیر پھوٹے  تو  وہ  چلا جائے ،  وضو کرکے  پھر اپنی نماز پوری کرے ۔ “( سنن دار القطنی ، ج 1 ، ص 282 ، حدیث 567 ، طبع بیروت )

   علامہ شیخ چلپی  تبیین الحقائق کے حاشیے میں فرماتے ہیں :

   ”و جه الاستدلال بالحديث أن قوله "وليبن" أمر وأدنى درجاته الإباحة  فيثبت شرعية البناء“

    ترجمہ : حدیث  پاک سے استدال کی صورت یہ ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان  مبارک "ولیبن " یعنی بنا کرے " امر ہے اور امر کا ادنی درجہ  اباحت ہے لہذا  بنا کا  جواز ثابت ہے ۔“(حاشیۃ الچلپی علی تبیین الحقائق ، ج 1 ، ص 145  ،طبع القاھرہ )

   مختصر الطحاوی اور اس کی شرح میں ہے :

   ” قال أبو جعفر (ومن رعف في صلاة، او غلبه قيء أو بول أو غائط: خرج فتوضأ، وغسل ما أصابه من ذلك، ثم رجع، يبني على ما مضي من صلاته ما لم يكن تكلم) قال أبو بكر أحمد: القياس عندهم يمنع جواز البناء بعد الحدث؛ لأن هذه الأفعال تحصل في الصلاة، وهي تنافيها، ۔۔۔ إلا أنهم تركوا القياس فيه للأثر، وقد بينا فيما سلف أن الأثر عندهم مقدم على النظر

   ترجمہ :  ابو  جعفر(امام طحاوی ) علیہ الرحمۃ  نے کہا ( جسے نماز میں نکسیر پھوٹے یا ،قے ، بول  ، براز غالب ہوجائے  تو وہ نکل جائے ، وضو کرے  اور جو اسے پہنچی  ہے ،اسے دھوئے  پھر لوٹے  اور اسی  نماز پر بنا کرے جہاں تک پڑھ چکا تھا  جبکہ کلام نہ کیا  ہو )ابوبکر احمد   علیہ الرحمۃ نے فرمایا  : ان کے نزدیک قیاس  حدث کے  بعد  بنا  کرنے کے جواز سے مانع ہے    کیونکہ  یہ افعال، نماز میں حاصل ہوں گے حالانکہ یہ  سب افعال نماز کے منافی  ہیں ۔۔۔۔ مگر یہ کہ انہوں نے  قیاس کو حدیث کی وجہ سے چھوڑ دیا  اور ہم پہلے بھی بیان کر  چکے ہیں کہ ان کے نزدیک حدیث قیاس پر  مقدم ہوتی ہے ۔ “( مختصر الطحاوی وشرحہ  للجصاص ، جلد 2 ، صفحہ 76 ،طبع  دار السراج )

   محیط برہانی میں علامہ ابن مازہ حنفی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :

   ” جواز البناء عرف شرعاً بخلاف القياس

    ترجمہ : بنا کرنے کا   جائز ہونا  خلاف قیاس  شرع سے  ثابت ہے ۔ ( محیط  برھانی ، جلد 1 ، صفحہ55 ، طبع بیروت ) 

   اجماع کے متعلق بنایہ  میں علامہ بدر الدین  عینی اور   بدائع الصنائع میں علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی  علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: اللفظ للآخر  :

   ” القياس أن لا يجوز البناء وفي الاستحسان جائز ۔۔۔وجه الاستحسان النص وإجماع الصحابة ۔۔۔وأما إجماع الصحابة فإن الخلفاء الراشدين والعبادلة الثلاثة وأنس بن مالك وسلمان الفارسي  رضي الله عنهم  قالوا مثل مذهبنا،وروي أن أبا بكر الصديق  رضي الله عنه  سبقه الحدث في الصلاة فتوضأ وبنى، وعمر  رضي الله عنه  سبقه الحدث وتوضأ وبنى على صلاته، وعلي  رضي الله عنه  كان يصلي خلف عثمان فرعف فانصرف وتوضأ وبنى على صلاته فثبت البناء من الصحابة  رضي الله عنهم  قولا وفعلا والقياس يترك بالنص والإجماع

   ترجمہ :  قیاس   یہ  ہے  کہ  بنا کرنا جائز نہ ہو  اور استحسانا جائز  ہے ۔۔۔ استحسان کی وجہ  نص اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہے ۔ ۔۔اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع  اس طرح ہے کہ  خلفائے راشدین  اور  عبادلہ  ثلاثہ ، انس بن مالک ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہم  کا فرمان ہمارے مذہب کے مطابق  ہے ، ابو بکر  صدیق رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے کہ  انہیں نماز میں حدث  ہوا تو  انہوں نے وضو کیا اور بنا کی ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کو  حدث لاحق ہوا تو  انہوں نے  وضو کیا اور  اپنی نماز پر بنا کی   اور حضرت علی رضی اللہ عنہ  ،حضرت عثمان  غنی رضی اللہ  عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے   انہیں نکسیر آئی  تو چلے گئے، وضو کیا اور اسی نماز پر بنا کی  لہذا بنا کرنا  صحابہ کرام علیم الرضوان سے  قولاً ، فعلاً دونوں طرح ثابت ہے  اور قیاس  ،نص اور اجماع کی وجہ سے ترک کردیاجاتاہے ۔(بدائع الصنائع ، جلد 1 ،صفحہ 220 ، طبع بیروت )

   بہار شریعت  میں صدر شریعہ علیہ الرحمۃ  بنا  کے جواز کے متعلق لکھتے ہیں :”        اور بہت سے صحابۂ  کرام مثلاً صدیق اکبر و فاروقِ اعظم و مولیٰ علی و عبداﷲ بن عمر و سلمان فارسی اور تابعین عظام مثلاً علقمہ و طاؤس و سالم بن عبداﷲ و سعید بن جبیر و شعبی و ابراہیم نخعی و عطا و مکحول و سعید بن المسیب رضوان اﷲ تعالیٰ عليہم اجمعین کا یہی قول ہے۔(  بہار شریعت ، جلد 1 ، حصہ3 ، صفحہ 595 ، طبع مکتبۃ المدینہ )

   نماز میں چلنے  کے متعلق" حلبۃ المجلی" میں ابن امیر الحاج  علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :

   ان المشیَ  لا يخلو من أن يكون بلا عذر، أو يكون بعذر. فإن كان بلا عذر، فإن كان كثيراً متوالياً يفسد الصلاة، سواء استدبر القبلة مع ذلك أو لم يستدبرها؛ لأنه حينئذ عمل كثير ليس من أعمال الصلاة، ولم تقع الرخصة فيه  ۔۔۔۔وإن كان بعذر، فإن كان لأجل الوضوء لحدث سبقه في الصلاة يسوغ له معه إلينا، أو لانصرافه إلى وجه العدو أو رجوعه منه في صلاة الخوف لم يفسدها، ولا يكره فيها؛ سواء كان قليلاً أو كثيراً،  استدبر القبلة معه أو لم يستدبرها بعد أن يكون الكثير متعيناً لذلك

   ترجمہ( نماز میں ) چلنا  یاتو بغیر عذر کے ہوگا یا عذر کے ساتھ ہوگا ، اگر بغیر عذر کے ہو    تو اگر   زیادہ اور مسلسل  ہو  تو نماز کو فاسد کردے گا ،برابر ہے کہ  اس کے سبب قبلہ سے منہ پھرا ہو یا  نہ پھرا  ہو  کیونکہ یہ عملِ کثیر  نماز کے اعمال میں سے نہیں ہے اور  نہ ہی اس کی رخصت  دی گئی ہے ۔۔۔۔ اور اگر عذر سے ہو  تو اگر نماز میں لاحق  ہونے والے حدث کے سبب  وضو کرنے  کے لئے  ہو   جس   کی وجہ سے    ہمیں  پھرنے کی گنجائش  دی گئی  ہے  یا   دشمن  کی طرف  پھرنے کی وجہ سے  ہو  یا  نمازِ خوف میں دشمن  سے  واپسی  کی وجہ سے  ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی  اور نہ اس میں  کوئی کراہت  ہوگی   ، برابر ہے کہ عمل قلیل کے ساتھ ہو یا کثیر کے ساتھ ،  قبلہ سے منہ  پھیرا ہو یا نہ پھیرا ہو  جبکہ  زیادہ چلنا  اس کے لئے  متعین ہوچکا ہو  ۔“(حلبۃ المجلی   ،جلد 2 ، صفحہ 275 ، طبع دار الکتب العلمیہ بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم