
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ امام صاحب نے مغرب کی نماز میں سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ) کو جہراً پڑھا، پھر اسی آیت کو دوبارہ جہراً پڑھ دیا اور سجدہ سہو کیے بغیر نماز مکمل کردی، کیا سجدہ سہو کے بغیر نماز ہوگئی یا دوبارہ پڑھنی ہوگی؟ سائل : عبد الجبار ( فیصل آباد )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فاتحہ کی تکرار کی صورت میں سجدہ سہو اُس وقت واجب ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بھولے سے فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں، نیز وتر اور نفل کی تمام رکعتوں میں سورت ملانے سے پہلے مکمل سورۃ الفاتحہ یا اس کے اکثر حصہ کا تکرار کرے اور اگر بعض فاتحہ، مثلاً ایک، دو آیات کا تکرار کیا، تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور چونکہ پوچھی گئی صورت میں امام صاحب نے سورۃ الفاتحہ کی صِرف ایک آیت کو دوبار پڑھا ہے، لہٰذا سجدہ سہو واجب نہ ہوا اور نماز ادا ہوگئی۔
نماز کے واجبات کو بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:
”وكذا ترك تكريرها قبل سورة“
ترجمہ: اسی طرح سورت سے پہلے فاتحہ کا تکرار نہ کرنا (واجب ہے)۔
اس کے تحت سورۃ الفاتحہ کی تکرار کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہونے کی تفصیل کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:
”فلو قرأها في ركعة من الأوليين مرتين وجب سجود السهو لتأخير الواجب وهو السورة كما في الذخيرة وغيرها، وكذا لو قرأ أكثرها ثم أعادها كما في الظهيرية، أما لو قرأها قبل السورة مرة وبعدها مرة فلا يجب كما في الخانية واختاره في المحيط والظهيرية والخلاصة وصححه الزاهدي“
ترجمہ: اگر پہلی دو رکعتوں میں سے کسی رکعت میں دو مرتبہ سورۃ الفاتحہ پڑھی، تو واجب یعنی سورت میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوجائے گا، جیسا کہ ذخیرہ اور اس کے علاوہ میں ہے، اسی طرح اگر سورۃ الفاتحہ کا اکثر حصہ پڑھا اور پھر اس کا اعادہ کیا (تو بھی سجدہ سہو واجب ہوجائے گا)جیسا کہ ظہیریہ میں ہے۔ لیکن اگر ایک مرتبہ سورت ملانے سے پہلے سورۃ الفاتحہ پڑھی اور دوسری مرتبہ سورت ملانے کے بعد پڑھی، تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا، جیسا کہ خانیہ میں ہے اور اس کو محیط، ظہیریہ اور خلاصہ میں اختیار کیا ہے اور اسی کو امام زاہدی نے صحیح قرار دیا ۔ (رد المحتار مع درمختار، جلد 2، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، صفحہ 188-189، مطبوعہ کوئٹہ)
بھولے سے مکمل یا اکثر فاتحہ کے تکرار سے سجدہ سہو واجب ہونے اور بعض فاتحہ کے تکرار سے سجدہ سہو واجب نہ ہونے کے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء)”جد الممتار“ میں لکھتے ہیں:
”تکرار الفاتحۃ وھو سھوا یوجب السجود ۔۔۔تکرار البعض لا یوجب السھو“
ترجمہ: بھولے سے فاتحہ کا تکرار سجدہ سہو واجب کردیتا ہے، جبکہ بعض فاتحہ کا تکرار سجدہ سہو واجب نہیں کرتا۔ (جد الممتار، جلد 3، کتاب الصلوۃ، فصل فی القراءۃ، صفحہ 237، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور نفل و وتر کی کسی رکعت میں سورۂ الحمد کی ایک آیت بھی رہ گئی یا سورت سے پیشتر دو بار الحمد پڑھی ۔۔۔تو ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہے۔ الحمد کے بعد سورت پڑھی اس کے بعد پھر الحمد پڑھی تو سجدۂ سہو واجب نہیں۔ يوہيں فرض کی پچھلی رکعتوں میں فاتحہ کی تکرار سے مطلقاً سجدۂ سہو واجب نہیں اور اگر پہلی رکعتوں میں الحمد کا زیادہ حصہ پڑھ لیا تھا۔ پھر اعادہ کیا تو سجدۂ سہو واجب ہے۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 710-711، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9479
تاریخ اجراء : 02ربیع الاول1447ھ/27اگست 2025ء