
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر نماز پڑھتے ہوئے آگے سے بلی گزر جائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز ہوجائے گی۔ نمازی کے آگے سے بلی کے گزرنے سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
”ولو مر مار في موضع سجوده لا تفسد“
ترجمہ: اور اگر کوئی گزرنے والا، نمازی کے موضع سجود سے گزرجائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (فتاوٰی عالمگیری، جلد1، صفحہ104، مطبوعہ: بیروت)
مبسوط سرخسی میں ہے
"وإن مر بين يديه مار من رجل أو امرأة أو حمار أو كلب لم يقطع صلاته عندنا"
ترجمہ: اور اگر کوئی گزرنے والا، نمازی کے سامنے سے گزرا یعنی مرد، عورت، گدھا یا کتا (الغرض کوئی بھی ) تو ہمارے نزدیک اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔(المبسوط للسرخسی، جلد1، صفحہ191، دار المعرفۃ، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے ”نمازی کے آگے سے بلکہ موضع سجود سے کسی کا گزرنا نماز کو فاسد نہیں کرتا، خواہ گزرنے والا مرد ہو یا عورت، کُتّا ہو یا گدھا۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ614، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4270
تاریخ اجراء: 02ربیع الثانی1447 ھ/26ستمبر 2520 ء