دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
ایک شخص کو بانوے (92) کلو میٹر سے اوپر کا سفر کرنا ہے، جہاں اس کو جانا ہے، اس کو یہ نہیں پتا کہ وہاں کتنے دن رہے گا؟ پندرہ (15) دن یا اس زیادہ بھی رہ سکتا ہے اور کم بھی، جب کام ہوگا تو چلا آئے گا، کیا یہ وہاں قصر نماز پڑھے گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں اگر واقعی وہاں پندرہ (15) دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی متعین نیت نہیں بلکہ جب کام ہو جائے گا واپس آ جائے گا، تو ایسی صورت میں وہ مسافر ہی رہے گا، خواہ یوں مہینوں گزر جائیں، لہذا جب تک ایسی تردّد (شک) والی نیت کے ساتھ وہاں رہے، قصر نماز ہی پڑھے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
و لو بقي في المصر سنين على عزم أنه إذا قضى حاجته يخرج ولم ينو الإقامة خمسة عشر يوما قصر
ترجمہ: کسی شہر میں چند سال اس ارادے کے ساتھ ٹھہرا کہ جب اس کی حاجت پوری ہو جائے گی وہ چلا جائے گا اور اس نے پندرہ دن وہاں ٹھہرنے کی نیت نہ کی تو وہ قصر پڑھے گا۔ (فتاوی ہندیہ، جلد 1، صفحہ 139، دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے ”مسافر کسی کام کے ليے یا ساتھیوں کے انتظار میں دو چار روز یا تیرہ چودہ دن کی نیت سے ٹھہرا یا یہ ارادہ ہے کہ کام ہو جائے گا تو چلا جائے گا اور دونوں صورتوں میں اگر آجکل آجکل کرتے برسیں گزر جائیں جب مسافر ہی ہے، نماز قصر پڑھے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ747، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4376
تاریخ اجراء: 07 جمادی الاولٰی 1447ھ / 30 اکتوبر 2025ء