صاحب ترتیب کا قضا بھول کر ادا نماز پڑھنا کیسا؟

صاحب ترتیب قضا نماز پڑھے بغیر بھولے سے وقتی نماز پڑھ لے تو کیا حکم ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک صاحب ترتیب امام صاحب کی نمازِ فجر قضا ہو گئی اورانہوں نے بھول کر فجر کی قضاء کیے بغیر ظہر پڑھا دی، نمازپڑھانے کے بعد یاد آیا کہ میری تو نماز  فجر کی قضا باقی رہتی ہے، اب آیا ان کی نماز ظہر ادا ہوئی یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں امام صاحب کی نمازِ ظہر درست ادا ہوئی، کیونکہ فقہائے کرام رحمھم اللہ تعالی کےارشادات کے مطابق اگر صاحبِ ترتیب (یعنی وہ شخص جس کی کوئی نماز قضا نہ ہو یا چھ سے کم نمازیں قضا ہوں) کو قضا نماز یاد نہ رہے اور وہ بھولے سے وقتی نماز پڑھ لے، تو اس صورت میں وقتی نماز ہو جاتی ہے، کہ بھول جانا شرعاً ایسا عذر ہے جس کے سبب نمازوں کی ترتیب ساقط ہوجاتی ہے۔

قضا نماز بھول جانے کے سبب قضا وادا نماز میں ترتیب لازم نہیں رہتی، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

فلا يلزم الترتيب (إذا ضاق الوقت۔۔۔ أو نسيت الفائتة) لأنه عذر

ترجمہ: جب نماز کا وقت تنگ ہو یا قضاء نماز بھول جائے تو (ان کے درمیان )ترتیب لازم نہیں رہتی، کیونکہ بھول جانا ایک عذر ہے۔ (الدرالمختار شرح تنویر الابصار، ص 97، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

قضا نماز بھولنے کے سبب ترتیب کیوں ساقط ہوجاتی ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام برہان الدین ابن مازہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

الترتيب يسقط بعذر النسيان، وبضيق الوقت وبكثرة الفوائت. أما بالنسيان؛ فلأنه عاجز عن شرائط التكليف و لا تكليف مع العجز؛ ولأن مراعاة الترتيب عرفت بالخبر، والخبر يتناول حالة الذكر لا حالة النسيان، بل في حالة النسيان خبر آخر بخلافه، وهو ما روي أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم خرج يوما ليصلح بين حيين، فنسي صلاة العصر، و صلى المغرب بأصحابه ثم قال لأصحابه:هل رأيتموني صليت العصر، فقالوا: لا، فصلى العصر و لم يعد المغرب

ترجمہ: بھول جانے کے عذر، تنگیِ وقت، اور فوت شدہ نمازوں کی تعداد (پانچ سے)زیادہ ہونے کے سبب ترتیب ساقط ہوجاتی ہے۔ بھولنے کے سبب اس وجہ سے کہ بھولنے والا مکلف ہونے کی شرائط سے عاجز ہو جاتاہے، اور عاجز وبے بس شخص مکلف نہیں ہوتا۔ نیز ترتیب کی رعایت حدیث سے ثابت ہے، اور حدیث حالتِ یاد میں لاگو ہوتی ہے، نہ کہ بھولنے کی حالت میں، بلکہ بھولنے کی حالت میں ایک اور حدیث ہے جو اس کے برعکس ہے، جیسا کہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن دو قبیلوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، تو اس دوران آپ کی نمازِ عصر بھولے سےرہ گئی، اورآپ نے مغرب کی نماز صحابہ کے ساتھ ادا فرمائی۔ بعد میں آپ نے صحابہ سے فرمایا: "کیا تم نے مجھے عصر پڑھتے دیکھا؟" انہوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے نماز عصر ادا فرمائی،لیکن نماز مغرب نہیں دہرائی۔ (المحيط البرهاني في الفقه النعماني، ج 1، ص 531،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

صاحبِ ترتیب بھول کر قضا نماز پڑھنے سے پہلے وقتی نماز پڑھ لے، تو اس متعلق فتاویٰ قاضیخان میں ہے:

و لو تذكر صلاة قد نسيها بعد ما أدى وقتیۃ، جازت الوقتية ولا یظھر الترتیب عند النسیان

ترجمہ: اگر (صاحبِ ترتیب) قضا نماز پڑھنا بھول گیا اور وقتی نماز پڑھنے کے بعد یاد آیا، تو وقتی نمازہوگئی، اور بھولنے کے وقت ترتیب ظاہر نہیں ہوگی۔ (فتاوی قاضیخان، جلد 1، صفحہ 104، مطبوعہ کراچی)

اسی حوالے سے بہار  شریعت میں ہے:”قضا نماز یاد نہ رہی اور وقتیہ پڑھ لی پڑھنے کے بعد یاد آئی تو وقتیہ ہوگئی اور پڑھنے میں یاد آئی تو گئی۔(بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 705، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: PIN-7639

تاریخ اجراء: 02ربیع الاول1447ھ/27اگست2025ء