
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایسا شخص کہ جو صاحب ترتیب تھا، وہ کسی وجہ سے عشاء کی نماز پڑھنا بھول گیا۔ جب فجر میں اٹھا تو نمازِ فجر باجماعت ادا کی، لیکن نماز کے بعد یاد آیا کہ میں رات عشاء کی نماز نہیں ادا کر سکا تھا۔ کیا ایسی صورت میں اُس کی فجر کی نماز ادا ہو گئی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر کسی صاحبِ ترتیب کی کوئی نماز رَہ گئی اور وہ بھول کر جس فرض نماز کا وقت چل رہا ہو، اُسے ادا کرنا شروع کر دے، تو اُس کی یہ موجودہ نماز ادا ہو گی یا نہیں، اِس کی دو صورتیں ہیں۔
(1) اگر صاحبِ ترتیب وقتیہ نماز ادا کرنا شروع کر دے اور اُسے دورانِ نماز اپنی قضاء نماز یاد نہ آئے، حتی کہ جس نماز کو پڑھ رہا ہو، اُس کا سلام پھیر دے، تو اُس کی یہ پڑھی جانے والی نماز شرعاً ادا ہو جائے گی، لہذا پوچھی گئی صورت میں نمازِ فجر ادا ہو گئی۔
(2) اگر دورانِ نماز یاد آ جائے کہ میری پچھلی نماز رہتی ہے، تو یہ فرض نماز نفل میں تبدیل ہو جائے گی اور اِسے بطورِ نفل مکمل کرے گا اور اِسے مکمل کرنے کے بعد پہلے اپنی قضا نماز پڑھے گا اور پھر موجودہ فرض نماز ادا کرے گا۔
فقیہ النفس امام قاضی خان اَوْزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 593ھ/1196ء) نے لکھا:
لو تذکر صلاۃ قد نسیھا بعد ما ادی وقتیۃ جازت الوقتیۃ
ترجمہ:اگر وقتی نماز ادا کرنے کے بعد وہ نماز یاد آئی، جسے پڑھنا بھول گیا تھا، تو ایسی صورت میں وقتی نماز ادا ہو گئی۔ (فتاوٰی قاضی خان، جلد 1، صفحہ 35، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 956ھ/ 1049ء) لکھتےہیں:
إن استمر النسيان إلى أن سلم صحت لسقوط الترتيب بالنسيان
ترجمہ:اگر کوئی شخص مسلسل بھولا رہا، یہاں تک وقتی نماز کا سلام پھیر دیا، تو وہ وقتی فرض نماز صحیح ہو گئی، کیونکہ بھولنے کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو چکی تھی۔(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، جلد 03، فصل فی قضاء الفوائت، صفحہ 69، مطبوعہ الجامعۃ الاسلامیۃ)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:قضا نماز یاد نہ رہی اور وقتیہ پڑھ لی، پڑھنے کے بعد یاد آئی، تو وقتیہ ہوگئی اور پڑھنے میں یاد آئی تو ،(وقتیہ نماز)گئی۔ (بھار شریعت، جلد 01، صفحہ 705، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)
البتہ اگر دورانِ نماز یاد آ جائے کہ میری گزشتہ ایک نماز رہتی ہے، تو اب اِس نماز کو بطورِ نفل مکمل کرے گا اور بعد میں اُس پچھلی رَہ جانے والی نماز کو ادا کرکے دوبارہ اِس وقتی نماز کو پڑھے گا، چنانچہ فتاوٰی عالَمگیری میں ہے:
من تذكر صلوات عليه و هو في الصلاة فقد حكي عن الفقيه أبي جعفر رحمه اللہ تعالى أن مذهب علمائنا رحمهم اللہ تعالى أن تفسد صلاته قال: ولكن لا تفسد حين ذكرها بل يتمها ركعتين ويعدهما تطوعا
ترجمہ:جس (صاحبِ ترتیب) کو دورانِ نماز گزشتہ رَہ جانے والی نمازیں یاد آئیں، تو فقیہ ابو جعفر نے حکایت فرمایا کہ ہمارے علماءِ احناف کا مذہب یہ ہے کہ اُس کی نماز فاسد ہو جائے گی، لیکن جیسے ہی یاد آئے، تو فوراً فاسد ہو جائے، ایسا نہیں ہے، بلکہ وہ اُسے دو رکعتوں پر مکمل کرے گا اور اُن دو رکعتوں کو نفل شمار کرے گا۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 122، مطبوعہ کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9115
تاریخ اجراء: 26ربیع الاوَّل 1446ھ /01اکتوبر 2024ء