
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3503
تاریخ اجراء:12رجب المرجب1446ھ/13جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی کے ذمہ بہت ساری قضا نمازیں ہوں اور وہ ان کو تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کر رہا ہے، تو کیا عشاء کے وتر کی تین رکعت نماز جس طرح پڑھنے کا طریقہ ہے، ویسے ہی پڑھنے سے وتر ادا ہوں گے یا پھر تین رکعت پڑھنے کے بعد پھر ایک رکعت ملا کر چار رکعت پڑھنا ضروری ہے؟ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نمازکی قضا اسی طریقے اوراندازپرکی جاتی ہے، جس پراسے وقت کے اندراداکیاجاتاہے، لہذاوتروں کی قضامیں بھی ادا کی طرح تین رکعتیں ہی پڑھنی ہوتی ہیں نہ کہ چار اورجس طرح ادامیں دعائے قنوت پڑھنی ہوتی ہے اسی طرح قضا میں بھی دعائے قنوت پڑھنی ہوتی ہے۔ المستدرک للحاکم میں ہے ”عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يسلم إلا في آخرهن“ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وآلہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور سلام صرف آخر میں پھیرتے۔(المستدرک للحاکم، جلد1، صفحہ447، حدیث1140، دار الكتب العلمية، بيروت)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے”روي عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «أوتروا يا أهل القرآن فمن لم يوتر فليس منا» ومطلق الأمر للوجوب، وكذا التوعد على الترك دليل الوجوب، وروى أبو بكر أحمد بن علي الرازي بإسناده عن أبي سليمان ابن أبي بردة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «الوتر حق واجب فمن لم يوتر فليس منا» وهذا نص في الباب، وعن الحسن البصري أنه قال: أجمع المسلمون على أن الوتر حق واجب…قال أصحابنا: الوتر ثلاث ركعات بتسليمة واحدة في الأوقات كلها“ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اہل قران وتر پڑھو جس نے وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں اور مطلق امر وجوب کے لیے آتا ہے۔ (لہذا یہاں حضور کے فرمان وتر پڑھو سے وجوب ثابت ہوتا ہے) اسی طرح وتر کے چھوڑنے پر وعید کا منقول ہونا وجوب کی دلیل ہے، روایت کی ابوبکر احمد بن علی رازی نے اپنی سند کے ساتھ ابو سلیمان بن ابو بردہ سے وہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃو السلام نے فرمایا وترحق واجب ہے جس نے وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ اس مسئلے میں نص ہے اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر حق واجب ہے۔ ہمارے علماء کرام نے فرمایا ہمیشہ وتر کی ایک ہی سلام کےساتھ تین رکعات ہیں۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، ج1 0،ص271، دار الکتب العلمیہ بیروت)
مبسوط سرخسی میں ہے ”أن القضاء بصفة الأداء“ ترجمہ: قضا، ادا کی طرح ہی ہوتی ہے۔(المبسوط للسرخسی،ج 2، ص124، دار المعرفۃ،بیروت)
دررشرح غررمیں ہے "إذا فاتت العشاء والوتر ولم يبق من وقت الفجر إلا ما يسع خمس ركعات يقضي الوتر ويؤدي الفجر عند أبي حنيفة" ترجمہ: جب عشااوروترفوت ہوجائیں اورفجرکے وقت میں سے صرف پانچ رکعات کی مقداربرابروقت باقی ہوتوامام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک وترقضاکرے گااورفجرادا کرے گا۔(دررالحکام شرح غررالاحکام،باب قضاء الفوائت،ج01،ص126،داراحیاء الکتب العربیۃ،بیروت)
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے”ويقنت في الثالثة قبل الركوع في جميع السنة أداء وقضاء“ترجمہ:وتر کی ادائیگی میں پورا سال تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھے،چاہے وتر ادا پڑھ رہا ہو یا قضا۔(اللباب فی شرح الکتاب، ج1، ص76، المكتبة العلمية، بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم