
مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری
مدنی
فتوی نمبر:Web-1141
تاریخ اجراء: 06ربیع الثانی1445 ھ/26اکتوبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ریاکاری سے عبادت ادا کی ہو، تو بعد میں اخلاص کی نیت نہیں،
بلکہ توبہ کرنی ہوگی اور سچی توبہ کرنے کے بعد اس عبادت
کی قبولیت کی امید ہے۔
حکیم الامت
مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃالمنان لکھتے ہیں:
”خیال رہے کہ ریا سے عبادت ناجائز نہیں ہوجاتی، بلکہ
نامقبول ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، اگر ریاکار آخر میں ریا سے توبہ کرے تو اس پر
ریا کی عبادت کی قضا واجب نہیں، بلکہ اس توبہ کی
برکت سے گزشتہ نامقبول ریا کی عبادات بھی قبول ہو جائیں
گی۔“(مِرْاٰۃ
المناجیح ،جلد7،صفحہ127،نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم