سمجھدار نابالغ بچہ صف میں کھڑا ہو تو نماز کا حکم

صف میں نابالغ سمجھدار بچہ کھڑا ہو تو نماز ہوجاتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ بعض اوقات نابالغ بچے مردوں کی صف میں کھڑے ہو کر جماعت سے نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جماعت میں تاخیر سے شامل ہوتے ہیں اور ان بچوں کو نماز کے دوران ہی صف سے ہٹا کر پیچھے کر دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نابالغ بچوں کے مردوں کی صف میں کھڑے ہونے سے بالغ افراد کی نماز نہیں ہوتی۔ ناسمجھ بچے جو نماز نہیں جانتے، ان کی حد تک تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ تو نماز میں بھی کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن ایسے بچے جو مکمل آداب کےساتھ نماز ادا کرتے ہیں، ان کے ساتھ یہ انداز و رویہ اپنانا سخت معیوب لگتا ہے، اور پھر کئی دفعہ ایسے بچے نماز توڑ کر بدتمیزی بھی کرتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس بارے میں شرع کا کیا حکم ہے؟ کیا ان لوگوں کا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

یہ سمجھنا کہ ”نابالغ بچوں کے مردوں کی صف میں کھڑے ہونے سے مَردوں کی نماز نہیں ہوتی“ غلط ہے۔ پھر جو بچے نماز جانتے ہیں اور مکمل ادب کے ساتھ اسے ادا کرتے ہیں، اگروہ جماعت میں مردوں کی صف میں کھڑے نماز ادا کر رہے ہوں تو نماز کے دوران انہیں ان کی جگہ سے ہٹا کر خود کھڑے ہونا غلط اور زیادتی ہے۔ ہاں ناسمجھ بچے جو نماز نہیں جانتے، ان کے مردوں کی صف کے درمیان کھڑے ہونے سے صف میں فاصلہ پیدا ہوتا ہے جو شرعا سخت ممنوع، اس لیے اس طرح کے بچوں کو مردوں کی صف سے ہٹا کر خود اس جگہ کھڑے ہونے کا حکم ہے۔

نابالغ بچوں کے مردوں کی صف میں کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز فاسد نہیں ہوتی، تبیین الحقائق کے حاشیہ شلبی اورفتح القدیر میں ہے،

و النص لفتح القدیر: ”و أما محاذاة الأمرد فصرح الكل بعدم إفساده إلا من شذ، و لا متمسك له في الرواية كما صرحوا به و لا في الدراية لتصريحهم بأن الفساد في المرأة غير معلول بعروض الشهوة بل هو لترك فرض المقام و ليس هذا في الصبي“

ترجمہ: رہا جماعت میں مرد کا نابالغ خوبصورت بچے کے ساتھ کھڑے ہونا تو سب نے اس کےمفسد نہ ہونے کی صراحت فرمائی ہے سوائے کسی شاذ قول کے جن کےپاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے جیسا کہ ائمہ نے واضح کیا، نہ عقلی دلیل ہے کیونکہ ائمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ عورت کی محاذات میں نماز کا فاسد ہونا شہوت (جنسی میلان) کی وجہ سےنہیں بلکہ صف کی ترتیب میں فرض حکم چھوڑنے کی وجہ سےہے اور یہ علت نابالغ کے حق میں موجود نہیں۔ (فتح القدیر، ج 1، ص 361، دار الفکر، لبنان)

عمدۃ الرعایہ شرح الوقایہ اور کمال الدرایہ میں ہے،

و اللفظ للآخر: ”فاذا علم أن العلۃ فی الافساد ترک فرض المقام ظھر عدم صحۃ قول من قال ان محاذاۃ الامرد تفسد الصلاۃ أیضاً وانما یصح ذلک أن لو کان العلۃ الشھوۃ و لیس کذلک“

ترجمہ: جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ نماز کے فاسد ہونے کی علت "فرض مقام" کو ترک کرنا ہے تو اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ نابالغ خوبصورت لڑکے کے ساتھ محاذات (یعنی صف میں برابر کھڑا ہونا) بھی نماز کو فاسد کر دیتا ہے، ان کا قول درست نہیں، کیونکہ یہ بات اسی وقت صحیح ہو سکتی تھی جب فساد کی علت شہوت (جنسی میلان) ہوتی، حالانکہ ایسا نہیں۔ (کمال الدرایہ، ج 1، ص 486، دار الکتب العلمیۃ)

اما م اہل سنت لکھتے ہیں: ”یہ خیال کہ لڑکا برابر کھڑا ہو تو مرد کی نماز نہ ہوگی غلط وخطا ہے جس کی کچھ اصل نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، ج 7، ص 208، 209، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ایسے نابالغ بچوں کو جو نماز جانتے ہیں، نماز کے دوران ان کی جگہ سے ہٹاکر خود وہاں کھڑے ہونا جہالت و ظلم ہے، جیسا کہ امام اہل سنت رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا: ”بعض بے علم جویہ ظلم کرتے ہیں کہ لڑکا پہلے سے داخل نماز ہے، اب یہ آئے تواسے نیت بندھا ہوا ہٹاکر کنارے کردیتے اور خود بیچ میں کھڑے ہوجاتے ہیں یہ محض جہالت ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 7، ص 208، 209، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ہاں ناسمجھ بچے جو نماز نہیں جانتے، انہیں مردوں کی صف سے ہٹا کر خود وہاں کھڑے ہوں،فتاوی مصطفویہ میں ہے: ”بالکل ناسمجھ بچے اگربیچ صف میں ہوں گے تو یہ برا ہوگا جیسے کچھ کچھ فاصلہ سے آدمی کھڑے ہوں کہ یہ برا اور گناہ بھی ہے۔ حدیث میں فرمایا

تراصوا الصفوف و سدوا الخلل

(یعنی صفوں میں خوب مل کرکھڑے ہواورصفوں کےخلا کو بند کرو) اور چھوٹے بچوں کے کھڑے ہونے میں یہ بات سدّ خلل گویا حاصل نہ ہوگی۔ اس لیے اگرکوئی بچہ کھڑا ہوجائے، تو یا اسے پیچھے کردیا جائے یا جو آتا جائے اسے ایک طرف ہٹا کر اس کی جگہ خود کھڑا ہوتا جائے۔“ (فتاوی مصطفویہ، ص 216، شبیر برادرز، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0597

تاریخ اجراء: 29 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 26 جون 2025ء