سفر کی نماز کا طریقہ

سفر کی نماز کا طریقہ کیا ہے؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

سفر کی نماز کا طریقہ کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شرعی سفر میں قصر نماز کا طریقہ یہ ہے کہ:

 ہر چار رکعت والی فرض نماز کی دورکعات پڑھے گا، اوردونوں رکعتوں میں منفرد اور امام قراءت بھی کرے گا(سورہ فاتحہ اورساتھ میں ایک چھوٹی سورت یاتین چھوٹی آیات یاایک بڑی آیت جوچھوٹی تین آیات کے برابرہو، اس کی تلاوت کرے گا۔) مغرب کی نماز اور وتر کی نمازاسی طرح تین رکعات پڑھے گا، جیسے سفرکے علاوہ، حالت اقامت میں پڑھی جاتی ہیں۔

اور سنتوں کے حوالے سے حکم یہ ہےکہ سنتوں میں قصر نہیں ہے، ان کی ادائیگی کا وہی طریقہ ہے جوسفرکے علاوہ، حالت اقامت میں ہے۔ مزیدیہ کہ مسافرِ شرعی کو حالتِ خوف و اضطرار میں سنتیں معاف ہیں اور حالتِ امن و قرار میں سنتیں پڑھی جائیں، اگرچہ سنتوں کی تاکید جو حضر(حالت اقامت) میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتی، کہ سفر خود ہی مشقت کے قائم مقام ہے، البتہ فجر کی سنتیں کہ یہ قریب بواجب ہیں، سفر کی وجہ سے انہیں ترک کرنے کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر و حضر، کہیں بھی انہیں ترک نہیں کیا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے

”وفرض المسافر فی الرباعیۃ رکعتان، کذا فی الھدایۃ، والقصر واجب عندنا، کذا فی الخلاصۃ۔۔۔ ولا قصر فی السنن، کذا فی محیط السرخسی، وبعضھم جوزوا للمسافر ترک السنن و المختار انہ لا یاتی بھا فی حال الخوف و یاتی بھا فی حال القرار والامن، ھکذا فی الوجیز للکردری“

 ترجمہ: چار رکعت والی نماز میں مسافر پر دو رکعتیں فرض ہیں، ایسا ہی ہدایہ میں ہے، اور ہمارے ہاں قصر واجب ہے، ایسا ہی خلاصہ میں ہے۔ اور سنتوں میں قصر نہیں ہے، ایسا ہی محیطِ سرخسی میں ہے، اور بعض نے مسافر کے لئے سنتیں ترک کرنے کو جائز کہا لیکن مختار یہ ہے کہ مسافر حالتِ خوف میں سنتوں کو ترک کر دے اور حالتِ امن و قرار میں سنتوں کو ادا کرے، ایسا ہی امام کردری کی الوجیز میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، جلد1، صفحہ139، مطبوعہ: بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے۔“ (بہار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ743، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سفر میں سنتیں پڑھنے کے بارے میں سوال ہوا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جوابا فرمایا: ”اگر سفر میں اطمینان نہ ہو جب تو سنتوں کے ترک میں کوئی قباحت ہی نہیں اور اطمینان ہو جب بھی سنن کا تاکد جو حضر میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتا کہ سفر خود ہی قائم مقام مشقت کے ہے۔۔۔ اور یہ حکم سنت فجر کے غیر کا ہے اور سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہے، لہذا سفر کی وجہ سے اسے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر و حضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم“ (فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ284، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4289

تاریخ اجراء: 08ربیع الثانی1447 ھ/02اکتوبر 2520 ء