سجدہ سہو ایک سلام کے بعد کیوں کیوں کرتے ہیں؟

سجدہ سہو ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد کیوں کیا جاتا ہے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ فقہ حنفی میں سجدہ سہو دائیں جانب سلام پھیرنے کے بعد کیا جاتا ہے، سلام پھیرنے سے پہلے نہیں۔ اِس کی کیا دلیل ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

احناف کے نزدیک دائیں جانب ایک سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرنا بہتر ہے، جبکہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے سے اگرچہ سجدہ سہوہوجائے گا، مگر ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔ فقہ حنفی کا سجدہ سہو کا طریقہ یعنی سجدہ سہو کا سلام کے بعد ہونا، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامین، کثیر صحابہ کرام، تابعینِ عظام اور ائمہ دین کے عمل سے ثابت ہے، مثلاً (1) حضرت علی (2) حضرت عبد اللہ بن مسعود (3) حضرت انس بن مالک (4) حضرت ابوہریرہ (5) حضرت ابو سلمہ (6) حضرت سعد بن ابی وقاص (7) حضرت عمار بن یاسر (8)حضرت سائب (9) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی (10) حضرت عمر بن عبد العزیز وغیرہم رِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ۔ یہ تمام افراد ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کیا کرتے تھے۔

سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرنے کےمتعلق صحیح بخاری میں ہے:

”وإذا شك أحدكم في صلاته، فليتحر الصواب فليتم عليه، ثم ليسلم، ثم يسجد سجدتين“

 ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے، تو اسے چاہیے کہ درستی کے متعلق غور وفکر کرے اور اسی کے مطابق نماز مکمل کرے، پھر سلام پھیر نے کے بعد (سہو کے)دو سجدے کرے۔ (صحیح البخاری، جلد 1، کتاب الصلاۃ، باب التوجہ نحو القبلۃ، صفحہ 89، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

اس حدیث مبارک پر علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 855ھ/1451ء) لکھتےہیں:

أن فيه دليلا علي أن سجدتي السهو بعد السلام، وهو حجة على الشافعي ومن تبعه في أنهما قبل السلام ۔۔۔ وبما قال أصحابنا الحنفية قال إبراهيم النخعي وابن أبي ليلى والحسن البصري وسفيان الثوري، وهو مروي عن علي بن أبي طالب وسعد بن أبي وقاص وعبد ابن مسعود وعبد ابن عباس و عمار بن ياسر و عبد ابن الزبير و أنس بن مالك، رضي اللہ عنهم“

 ترجمہ: اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ سجدہ سہو سلام کے بعد ہوتا ہے۔ یہ حدیث امام شافعی اور ان کے متبعین کی اس بات کے خلاف حجت ہے کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے ہے۔ اور جو اصحابِ حنفیہ کا مؤقف ہے، وہی ابراہیم نخعی، ابنِ ابی لیلیٰ، امام حسن بصری اور حضرت سفیان ثوری رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ کاکہنا ہے اور  یہی حضرت علی بن ابی طالب، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عمار بن یاسر، حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت انس بن مالک رِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن سے مروی ہے۔ (عمدة القاری، جلد 4، کتاب الصلاۃ، صفحہ 208، مطبوعہ بیروت)

یونہی دیگر کتبِ حدیث میں ہے،

واللفظ لسنن أبی داؤد: ”عن ثوبان، عن النبي صلی اللہ علیہ والہ وسلم قال: لكل سهو سجدتان بعد ما يسلم“

ترجمہ: حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: (نماز میں)ہر سہو کے بدلے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں۔ (سنن ابی داؤد، جلد 1، کتاب الصلاۃ، صفحہ 273، مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ، بیروت)

ذکر کردہ حدیث کے متعلق شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1052ھ) نے لکھا: ”أن رسول اللہ ﷺ قال: لكل سهو سجدتان بعد ما يسلم، وتقريره أن فعله ﷺ جاء متعارضا فتمسكنا بقوله، وهو أقوى عندنا من الفعل كما ثبت في أصول الفقه خصوصا عند التعارض “

 ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ہر سہو کے لیے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں، اس مسئلے کی وضاحت یہ ہے کہ (سجدہ سہو کے محل کے متعلق) نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مختلف منقول ہواہے، لہٰذا ہمارا اِستدلال قولِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور وہ ہمارے نزدیک فعل سے زیادہ قوی ہے، جیسا کہ اصولِ فقہ میں بالخصوص تعارض کے وقت یہ بات ثابت ہے ۔ (لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 155، مطبوعہ دارالنوادر، دمشق )

حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے عمل کے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

”أن عبد اللہ، سجد سجدتي السهو بعد السلام، وذكر أن النبي صلی اللہ علیہ والہ وسلم، فعله“

 ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کیا اور فرمایا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی ایسے کیا تھا۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، جلد 1، صفحہ387، مطبوعہ دار التاج، لبنان )

یہی عمل خلیفہ راشد حضرت علی، حضرت انس، حضرت ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت سعد، حضرت عمار، حضرت سائب، حضرت ابن ابی لیلی اور حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہم وغیرہم کا تھا۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، جلد 1، صفحہ386-387، مطبوعہ دار التاج)

سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرنے کے اولیٰ ہونے کے متعلق میں علامہ زَبِیدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 800ھ/1397ء) لکھتےہیں:

”والخلاف في الأولوية حتى لو سجد عندنا قبل السلام جاز إلا أن الأول أولى“

 ترجمہ : (سجدہ سہو کے سلام سے پہلے یا بعد ہونے میں) اختلاف اولویت کے بارے میں ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے، تو بھی جائز ہے، لیکن سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا اولیٰ ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد 1، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، صفحہ 198، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

سلام سے قبل سجدہ سہو کے مکروہِ تنزیہی ہونے کے متعلق علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:

”ولو سجد قبل السلام جاز وكره تنزيها“

 ترجمہ: اگر سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کیا، تو جائز ہے، لیکن (ایسا کرنا)مکروہِ تنزیہی ہے۔ (درمختار، جلد 2، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، صفحہ 653، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : FSD-9454

تاریخ اجراء :21صفر المظفر1447ھ/16اگست 2025ء