سلام پھیرتے وقت اللہ اکبر کہنے کا حکم؟

سلام پھیرتے وقت غلطی سے اللہ اکبر کہا، پھر سلام کے الفاظ کہہ کر سلام پھیرا تو کیا حکم ہے؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

نماز میں سلام پھیرنے کےلیے غلطی سے سلام کے الفاظ کے بجائےاللہ اکبر کہہ دیا پھر فوراً یاد آنے پر دونوں طرف سلام پھیرتے ہوئے سلام کے الفاظ کہہ لیے تو کیا حکم ہے؟ 

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورت مسئولہ میں سلام کے الفاظ کے بجائے اللہ اکبر کہہ دینے سے نماز فاسد نہیں ہوئی کہ یہ ذکر ہےاور نمازمیں اللہ پاک کا ذکر بطور جواب نہ ہو، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ذکر اللہ کے بطور جواب ہونےسے مراد یہ ہےکہ نمازی نمازمیں کسی شخص سے مخاطب ہوکربطور جواب اللہ کا ذکر کرے، مثلاکوئی چھینک مارے، تو بطور جواب یرحمک اللہ کہے اور اگر خطاب کے بغیر خود ہی ذکراللہ کرے، تو یہ ذکر مفسدِ نما ز نہیں جیسے کوئی نماز میں چھینکنے کے بعد خود ہی الحمد للہ یا یرحمک اللہ کہے۔ نیز پوچھی گئی صورت میں سجدہ سہوبھی واجب نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں "اللہ اکبر" کہنے سے سلام میں کسی رکن کی مقدارتاخیرنہیں ہوئی، نہ کوئی واجب ترک ہوا۔ لہذا خروج بصنعہ لفظ سلام سےہی پایا گیا، نماز بلا کراہت مکمل ہو گئی۔

علامہ شامی علیہ الرحمہ نے دوران نماز ذکر اللہ کرنے کےمتعلق ردالمحتار میں فرمایا:

لولم یقصد الجواب بل قصد الثناء والتعظیم لا تفسد لان نفس تعظیم اللہ تعالی والصلاۃ علی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم لاینافی الصلاۃ

یعنی: اگر اس نے ( ذکر اللہ یا درود پاک سے) جواب کا ارادہ نہ کیا، بلکہ ثنا و تعظیم کا ارادہ کیا، تونماز فاسدنہیں ہو گی، کیونکہ فی نفسہ اللہ پاک کی تعظیم اور نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام پر درود پاک پڑھنانمازکے منافی نہیں ہے۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، جلد 2، صفحہ460، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی نوریہ میں ہے ”اگرقرآن کریم کے کلمات یا کلمہ طیبہ یا تسبیح کسی کے جواب میں کہے، تو مصرح کہ ہمارے امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک نماز فاسد ہوجاتی ہے، جبکہ بغرض جواب کہے، ہاں نیتِ جواب نہ ہو، تو پھر ان اذکارسے نماز قطعا فاسد نہیں ہوتی۔“ (فتاوی نوریہ، جلد1، صفحہ398، دارالعلوم حنفیہ فریدیہ )

غنیۃ المستملی میں ہے

”(ان سھا عن السلام) یعنی بالسھو عن السلام (بانہ اطال القعدۃ) الاخیرۃ ساکنا قدر رکن او اکثر ( علی ظن انہ خرج من الصلوٰۃ) ثم علم انہ لم یخرج ولم یسلم (فسلم) یسجد للسھو لتاخیرہ الواجب“

 یعنی: اگر کوئی شخص سلام بھول گیا اوراس نے ایک رکن یا اس سے زائد کی مقدار خاموش رہتے ہوئے قعدہ اخیرہ طویل کردیا اس گمان سے کہ وہ نماز سے نکل چکا ہے، پھر اسے یاد آیا کہ وہ نماز سے خارج نہیں ہوا اور اس نے سلام نہیں پھیرا، تو وہ سلام پھیرے اور سجدہ سہو بھی کرے، کیونکہ اس سے واجب میں تاخیر ہوئی ہے۔ (غنیۃ المستملی، صفحہ 401، مطبوعہ : کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4182

تاریخ اجراء: 09ربیع الاول1447 ھ/03ستمبر 2520 ء