سیدھا ہاتھ نہ ہو تو تشہد میں انگلی اٹھانے کا حکم؟

جس کا دایاں ہاتھ نہ ہو، اس کے لیے تشہد میں انگلی سے اشارے کا کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-2752

تاریخ اجراء:20 شعبان المعظم 1446 ھ/ 19 فروری  2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا سیدھا ہاتھ پیدائشی شَل ہوا ہے یعنی مرجھایا ہوا ہے، جس وجہ سے یہ ہاتھ بالکل بے جان ہے اور کام نہیں کرتا۔ سارے کام بائیں ہاتھ سے کرتا ہوں۔نماز سے متعلق پوچھنا ہے کہ نماز میں تشہد میں جب انگلی اٹھاتے ہیں، تو اس وقت میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا میں بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اٹھاؤں یا بالکل نہیں اٹھاؤں گا؟ شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کے لیے تشہد میں رفع سبابہ (یعنی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنے ) کا حکم نہیں ہے، جس وجہ سے آپ بائیں ہاتھ کی انگلی سے بھی اشارہ نہیں کریں گے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو طریقہ منقول ہے، وہ دائیں یعنی سیدھے ہاتھ کی انگلی سے ہی اشارہ کرنا ہے اوریہی سنت ہے اور اگر کسی کے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی کٹی ہو یا دایاں ہاتھ ہی نہ ہو تو وہ دائیں ہاتھ کی کسی اور انگلی سے یا بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اشارہ نہیں کرے گا، لہٰذا آپ بائیں ہاتھ کی انگلی سے اشارہ نہیں کریں گے۔

   صحیح مسلم ودیگر کتبِ صِحَاح و سُنَنْ میں ہے، :عن عامر بن عبد اللہ  بن الزبير، عن أبيه، قال: كان رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، و يده اليسرى على فخذه اليسرى، و أشار بإصبعه السبابة، ‌و وضع ‌إبهامه على إصبعه الوسطى ترجمہ: حضرت عامر اپنےوالد حضرت  عبدا للہ  بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ جب قعدہ  میں تشہد پڑھنے کےلیے بیٹھتے، تواپنا دایاں  ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور اپنا بایاں  ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور (دائیں ہاتھ کی ہی) شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیان والی اُنگلی پر رکھتے (یعنی انگوٹھے اور انگلی کا  حلقہ بنا لیتے)۔(الصحیح لمسلم، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الجلوس فی الصلاة، جلد 1، صفحہ260، مطبوعہ لاھور(

   امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: و يشير بمسبحة اليمنى لا غير فلو كانت مقطوعة أو عليلة لم يشر بغيرها لا من الأصل باليمنى و لا اليسرى ترجمہ: دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرے، اس کے علاوہ سے نہیں، لہٰذا اگر کسی کی یہ انگلی کَٹی ہو، یا اس میں کوئی مرض ہو ، تو اس کے علاوہ دائیں یا بائیں ہاتھ کسی سے بھی اشارہ نہیں کرے گا۔(شرح النووی علی مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب صفۃ الجلوس فی الصلوٰۃ، جلد 5، صفحہ 81، مطبوعہ بیروت)

   یہ اشارہ دائیں ہاتھ سے کیا جائے گا، چنانچہ اس کا طریقہ بیان کرتے ہوئے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:و صفتها: أن يحلق من يده اليمنى عند الشهادة الإبهام و الوسطى، و يقبض البنصر و الخنصر، و يشير بالمسبحةترجمہ: اس کا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ شہادت کے وقت دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور درمیان والی انگلی سے حلقہ بنائے اور چھوٹی انگلی اور اس کے ساتھ والی کو بند کر لے اور پھر شہادت والی انگلی سے اشارہ کرے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ، باب صفۃ الصلوٰۃ، جلد 2 ، صفحہ 266، مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ طریقے کے مطابق اشارہ کرنا ہی سنت ہے، جیسا کہ علامہ عبد الحیّ لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ اس کا طریقہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: و هذا؛ أي استنانُ الإشارةِ بالسبابة مع الكيفيَّةِ المذكورةِ قد صحَّحه و اعتمدَ عليه كثيرٌ من أصحابنا، كما لا يخفى ترجمہ: اور یہ یعنی شہادت والی انگلی سے مذکورہ طریقے کے مطابق اشارہ مسنون ہونے کی تصحیح کی ہے  اور ہمارے کثیر اصحاب نے اسی پر اعتماد کیا ہے۔ جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔(عمد الرعایۃ بتحشیۃ شرح الوقایہ، کتاب الصلوٰۃ، جلد 2، صفحہ 290، مطبوعہ بیروت)

   صرف دائیں ہاتھ سے اشارہ کیا جائے گا، چنانچہ نور الایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:” "و" تسن "الإشارة في الصحيح" لأنه صلى الله عليه و سلم رفع أصبعه السبابة و تكون "بالمسبحة" أي السبابة من اليمنى فقط ترجمہ: صحیح قول کے مطابق اشارہ کرنا سنت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے دوران اپنی شہادت والی مبارک انگلی کو اٹھایا تھا۔ اور یہ اشارہ صِرف دائیں ہاتھ کی کلمہ شہادت والی انگلی سے ہی کیا جائے گا۔

   اگر وہ انگلی کَٹی ہو، تو اس کے علاوہ سے اشارہ نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ مراقی کی مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ سید احمد طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: لا يشير بغير المسبحة حتى لو كانت مقطوعة أو عليلة لم يشر بغيرها من أصابع اليمنى و لا اليسرى كما في النووي على مسلم ترجمہ: کلمہ شہادت کے علاوہ کسی اور انگلی سے اشارہ نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اگر یہ انگلی کٹی ہو، یا اس میں کوئی مرض ہو ، تو دائیں یا بائیں ہاتھ کی اور انگلیوں سے اشارہ نہیں کرے گا، جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح صحیح مسلم شریف میں ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصلوٰۃ، فصل فی بیان سننھا، صفحہ 269، بیروت)

   نور الایضاح کی عبارت (و الاشارۃ فی الصحیح بالمسبحۃ) کے تحت امداد الفتاح میں ہے: ”و تکون (بالمسبحۃ) تسمیٰ بالسبابۃ ایضا من اصابع الید الیمنیٰ فقط“ ترجمہ: مسبحہ کو سبابہ بھی کہتے ہیں( اور یہ اشارہ ) فقط دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ہوگا۔(امداد الفتاح شرح نور الایضاح، کتاب الصلوٰۃ، فصل فی سننھا، صفحہ  299، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی میں ایک اور مقام پر ہے: ”(و اشارہ بالمسبحۃ) من اصابع یدہ الیمنیٰ“ مفہوم گزر چکا۔(امداد الفتاح شرح نور الایضاح، کتاب الصلوٰۃ، فصل فی کیفیۃ ترکیب الصلوٰۃ، صفحہ 323، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم