
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی کا شوہر نمازوں کی پابندی نہ کرتا ہو اور اس کا اثر بچوں پر پڑ رہا ہو تو اس کو کیسے سمجھا یا جائے اور اس کا وبال کس پر ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شوہر نماز نہ پڑھے تو اس کا وبال شوہر پر ہی ہوگا، کہ روزِ قیامت ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بار ہو گا، جو اس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عوض نہ پکڑی جائے گی۔ البتہ! بیوی کے لیے نیکی کی دعوت دینے اوربرائی سے روکنے والے احکام ہوں گے یعنی اگر اسے غالب گمان ہے کہ میرے سمجھانے سے وہ نمازپڑھنا شروع کردیں گے تواب سمجھانا واجب ہے ورنہ واجب نہیں، بلکہ اگر معلوم ہوکہ فتنہ و فساد پیدا ہوگا، آپس میں لڑائی ٹھن جائے گی تواس صورت میں اس حوالے سے بات نہ کرنا افضل ہے۔ اور جس صورت میں سمجھائے تو نرمی اور حکمت سے بات کرے اور نماز پڑھنے کے فضائل اورنہ پڑھنے کی وعیدیں بتائے اور اس حوالے سے بچوں پر پڑنے والے اثرات کے متعلق آگاہ دے۔ اور ہر صورت انتہائی خلوص سے شوہر کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی رہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ (پارہ 22، سورۃ فاطر، آیت 18)
اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے ”معنیٰ یہ ہیں کہ روزِ قیامت ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بار ہو گا، جو اس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عوض نہ پکڑی جائے گی۔“ (تفسیرِ خزائن العرفان، صفحہ 808، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے "امربالمعروف کی کئی صورتیں ہیں:
(1) اگر غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان سے کہے گا تو وہ اس کی بات مان لیں گے اور بری بات سے باز آجائیں گے، تو امر بالمعروف واجب ہے اس کو باز رہنا جائز نہیں اور
(2) اگر گمان غالب یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی تہمت باندھیں گے اور گالیاں دیں گے تو ترک کرنا افضل ہے اور
(3) اگر یہ معلوم ہے کہ وہ اسے ماریں گے اور یہ صبر نہ کرسکے گا یا اس کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوگا آپس میں لڑائی ٹھن جائے گی جب بھی چھوڑنا افضل ہے۔" (بہارشریعت، ج 03، حصہ 16، ص 615، مکتبۃ المدینہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے ”ایمان وتصحیح عقائد کے بعد جملہ حقوق اﷲ میں سب سے اہم و اعظم نماز ہے۔ جمعہ و عیدین یا بلا پابندی پنجگانہ پڑھنا ہرگز نجات کاذمہ دار نہیں۔ جس نے قصداً ایک وقت کی نماز چھوڑی ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق ہوا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ کرلے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 9، صفحہ 158 - 159، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
نوٹ: بے نمازی کے متعلق وعیدات سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”فیضانِ نماز، صفحہ 421 تا 464“ سے ”نماز نہ پڑھنے کے عذابات“ کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ اس کتاب کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4125
تاریخ اجراء: 18 صفر المظفر 1447ھ / 13 اگست 2025ء