
مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3578
تاریخ اجراء:14شعبان المعظم1446ھ/13فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
سردیاں ہیں گاؤں میں آگ جلانے والے کچے مٹی کے کمرے ہوتے ہیں۔ جو گرم رہتے ہیں دوسرے روم میں سردی ہوتی ہے تو نماز کی جگہ تھوڑی ہوتی ہے۔ تو آگے جو لوگ سو رہے ہوتے ہیں ہماری نماز ہو جائےگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر سونے والوں سے کسی مضحکہ خیز حرکت کا اندیشہ ہو تو پھر ان کی طرف نماز نہیں پڑھیں گے، ورنہ اس میں کوئی حرج نہیں اور حدیث مبارک سے یہ عمل ثابت ہے۔
سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ”كنت أنام بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجلاي في قبلته، فإذا سجد غمزني فقبضت رجلي، فإذا قام بسطتهما“ ترجمہ: میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پاؤں آپ صلى الله عليه وسلم کے سامنے ہوتے تھے، جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے ہلکا سا اشارہ کرتے، تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی، اور جب آپ قیام فرماتے تو میں انہیں دوبارہ پھیلا لیتی۔(صحيح البخاري، جلد 01، صفحہ 86، المطبعۃ الکبری الامیریۃ، مصر)
حلبی کبیر میں ہے :"و ما فی مسند البزار عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال نهيت ان اصلی الى النيام والمتحدثين مع ان البزار لا یعلمہ الا عن ابن عباس فھو محمول علی ما اذا کانت لھم اصوات یخاف منھا التغلیط و الشغل، و فی النائمین اذا خاف ظھور شیئ“ ترجمہ: وہ جو مسند بزار میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا: مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں سوئے ہوؤں اور باتیں کرتے ہوؤں کہ طرف نماز پڑھوں، تو امام بزار اس حدیث پاک کو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کے علاوہ کسی سے نہیں جانتے، اس صورت پر محمول ہے جب ان کی ایسی آوازیں ہوں جن سے غلطی ہو جانے اور مشغولیت کا خوف ہو۔ اور سونے والوں میں اس صورت پر محمول ہے جب اس سے کوئی ایسی چیز واقع ہونے کا ڈر ہو۔(حلبی کبیر، صفحہ 311، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم