
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز وتر پڑھتے ہوئے اگر کوئی تیسری رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے پہلے بھول کر دعائےقنوت پڑھ لے اور پھر سورت ملانے کے بعد دوبارہ دعائے قنوت پڑھے، تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نمازِ وتر کی ہررکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعدکسی اجنبی فاصل کے بغیر سورت ملانا واجب ہے، جبکہ سورۂ فاتحہ اور بعد والی سورت کے توابِع (یعنی آمین اور تسمیہ) کے علاوہ بقیہ اذکار ودعائیں (جیسے دعا ئےقنوت وغیرہ) اجنبی فاصل ہیں، لہذا اگر کوئی وتر کی تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے قبل بھول کر دعائےقنوت پڑھ لےتو سجدہ سہو لازم ہوگا، کہ بھول کر واجب ترک کرنے کی صورت میں سجدۂ سہو لازم ہوتا ہے اور اگر سجدۂ سہو نہ کیا، تو نماز دوبارہ پڑھنی واجب ہو گی۔
تنویر الابصار میں ہے:
و ضم سورۃ فی الاولیین من الفرض و جمیع النفل و الوتر
ترجمہ: فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور نفل و وتر کی تمام رکعتوں میں سورت ملانا واجب ہے۔ (تنویر الابصار، صفحہ64،دارالکتب العلمیہ، بیروت)
مذکورہ بالا عبارت پر کلام کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:
اقول: فی لفظ الضم اشارۃ الی ان الواجب ان یکون السورۃ اثر الفاتحۃ بلا فصل باجنبی کسکوت ، فقد صرحوا ان لو قرا الفاتحۃ ثم وقف متاملاً انہ ای سورۃ یقرا لزمہ سجود السھو و انما قلت باجنبی لاخراج آمین فانہ من توابع الفاتحۃ و بسم اللہ قبل السورۃ فانھا من توابع السورۃ۔ و استفید من ھاھنا ان لو وقف بعد الفاتحۃ یقرا دعاء او ذکرا لزمہ السجود ان سھوا، و الاعادۃ لو عمدا
ترجمہ:میں کہتا ہوں: ”ضم“ کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ واجب ہے کہ (ملائی جانےوالی) سورت، سورت فاتحہ کے بعد کسی اجنبی، جیسے سکوت کے فاصلے کے بغیر ہو، کہ فقہاء نے صراحت فرمائی ہےکہ اگر فاتحہ کی قراءت کی اور پھریہ سوچتے ہوئے ٹھہرا رہا کہ کون سی سورت پڑھے، تو اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا، اور میں نے اجنبی کی قید ”آمین “کو نکالنے کے لیے لگائی کہ یہ فاتحہ کے توابع میں سے ہے اور سورۃ سے پہلے” بسم اللہ“کو نکالنے کے لیے لگائی کہ یہ سورت کے توابع میں سے ہے۔ یہاں سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اگر کوئی فاتحہ کے بعد دعا یا ذکر کی وجہ سے رکا ، تو اگر بھولے سے ہوتو اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا اور اگر جان بوجھ کر ہو تو نماز کا اعادہ واجب ہوگا۔ (جد الممتار، جلد 3، صفحہ 150، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ”حافظ نے تراویح میں فاتحہ اور سورہ توبہ کے درمیان
اعوذ باللہ من النار و من شر الکفار۔ الخ
بالجھر قصداً پڑھا، اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ نماز ہوئی یا نہیں؟“
تو جواباً ارشاد فرمایا: ”سورہ توبہ شریف کے آغاز پر بجائے تسمیہ یہ تعوذ محدثاتِ عوام سے ہے، شرع میں اس کی اصل نہیں، خیر بیرون نماز اس میں حرج نہ تھا۔ رہی نماز اگر سورہ فاتحہ کے بعد یہی سورہ توبہ شروع کی اور اس سے پہلے وہ اعوذ پڑھی تو نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی کہ واجب ضم سورۃ، بوجہ فصل بالاجنبی(یعنی اجنبی کے فاصلے کے سبب سورت ملانے کا واجب) ترک ہوا۔(فتاوی رضویہ، ج 7، ص 481، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ترک واجب کے حوالے سے درمختار میں ہے:
(و لها واجبات) لا تفسد بتركها و تعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد لہ
ترجمہ: نماز کے کچھ واجبات ہیں کہ جن کو چھوڑنے سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی، البتہ جان بوجھ کر چھوڑنے میں اور بھول کر چھوڑنے میں اگر سجدہ سہو نہ کیا ہو،تو نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔ (الدر المختار شرح تنویر الابصار، صفحہ 64، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی امجدیہ میں ہے:”واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو واجب، اور اگر سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔“ (فتاویٰ امجدیہ، ج 01، ص 276، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: PIN-7630
تاریخ اجراء: 23 صفر المظفر1447ھ/18اگست2025ء