سنت مؤکدہ کی چاروں رکعتوں میں سورتوں کی ترتیب ضروری ہے؟

سنت مؤکدہ کی چاروں رکعتوں میں سورتوں میں ترتیب ضروری ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-669

تاریخ اجراء:21 شعبان المعظم 1446 ھ/ 20 فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ  اگر چار رکعت سنت مؤکدہ ظہر کی پڑھ رہے ہوں تو  کیا چاروں  رکعتوں میں تلاوت کی  ترتیب کا خیال رکھنا ہوگا یا  پہلی دو اور پھر دوسری دو رکعتوں  میں ترتیب رکھنی ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سنت مؤکدہ نمازاپنی تاکید کی وجہ سے  فرضوں کے مشابہ ہونے کے سبب کثیراحکام کے اعتبار سے ایک ہی نماز ہے۔ فرضوں سے  مشابہت کی وجہ سے ہی سنت مؤکدہ  کو ایک نماز مانتے ہوئے اس کے قعدہ اُولیٰ میں درود شریف اور تیسری رکعت کے شروع میں ثنا پڑھنے کی ممانعت  ہے، لہٰذا  سنت مؤکدہ کے  فرضوں سے مشابہت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ  قراءت کے اعتبار سے بھی اس کی چاروں رکعتیں فرض نماز کی طرح ایک نماز ہو اور اس کی تمام رکعتوں کی قراءت میں  ترتیب لازم ہو۔ نیز چاروں رکعتوں میں ترتیب کے لزوم میں احتیاط بھی ہے جو کہ عبادات کے معاملے میں بہت ضروری ہے کیونکہ چاروں رکعتوں کی تلاوت  میں ترتیب قائم کرنا  کوئی گناہ نہیں، لیکن قراءت کے اعتبار سے ایک نماز ہونے کے سبب  خلاف ترتیب تلاوت کرنا  ضرور مکروہ تحریمی ناجائز وگناہ ہوگا۔

   سنت مؤکدہ کی چاروں رکعتوں میں ترتیب کو احتیاطاً لازم کرنے میں اس کی نظیر وتر کی تمام رکعتوں میں احتیاطاً قراءت کے لازم ہونے والا مسئلہ ہے کہ وتر کی نماز  واجب ہے،  لیکن فقہائے کرام نے اس  کے سنت مؤکدہ ہونے کے  احتمال  کے سبب احتیاط کے طور پر وتر کی تمام رکعتوں میں قراءت کو لازم کیا، کیونکہ فرض و واجب کی تمام رکعتوں میں قراءت کوئی  ممنوع  تو نہیں، لیکن نفل نماز کی تمام رکعتوں میں قراءت واجب  ہے، لہذا تمام رکعتوں میں قراءت کرنے سے تو یقینی طور پر برئ الذمہ ہوا جاسکتا ہے، برخلاف  نفل کی صرف دو رکعتوں میں تلاوت کرنے سے  برئ الذمہ نہیں ہوا جاسکتا، لہٰذا چار رکعت  سنت مؤكده   کے فرضوں سے مشابہ ہونے میں  بھی  احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس  کی تمام رکعتوں  کی قراءت میں    ترتیب لازم ہو اور خلاف ترتیب تلاوت ممنوع ہو۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے: ’’ان المؤکدۃ الرباعیۃ صلاۃ واحدۃ باعتبار کثیر من الاحکام‘‘ ملخصاً۔ ترجمہ: چار رکعت سنت مؤکدہ کثیر احکام کے اعتبار سے ایک  نماز ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 425، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    مجمع الانہر  اور بحر الرائق میں ہے: و اللفظ للبحر ’’القراءة فرض في جميع ركعات النفل و الوتر أما النفل فلأن كل شفع منه صلاة على حدة و القيام إلى الثالثة كتحريمة مبتدأة و لهذا لا يجب بالتحريمة الأولى إلا ركعتان في المشهور عن أصحابنا و لهذا قالوا يستفتح في الثالثة و أما الوتر فللاحتياط كذا في الهداية و زاد في فتح القدير و يصلي على النبي - صلى الله عليه و سلم - في كل قعدة و قياسه أن يتعوذ في كل شفع انتهى إلا أنه لا يتم لأنه لا يشمل السنة الرباعية المؤكدة كسنة الظهر القبلية فإن القراءة فرض في جميع ركعاتها مع أن القيام إلى الثالثة ليس كتحريمة مبتدأة بل هي صلاة واحدة و لهذا لايستفتح في الشفع الثاني و لايصلي في القعدة الأولى‘‘ ترجمہ: نفل و وتر کی تمام رکعات میں قراءت فرض ہے، بہرحال نفل میں اس لئے کہ اس کا ہر شفعہ علیحدہ نماز ہے، اور تیسری رکعت  میں قیام نئی تحریمہ کی طرح ہے  اسی وجہ سے ہمارے اصحاب سے مشہور روایت کے مطابق  پہلی تحریمہ سے دو ہی رکعتیں واجب ہوتی ہیں، اور اسی وجہ سے فقہائے کرام نے فرمایا کہ وہ تیسری رکعت میں ثنا  ءپڑھے گا، اور وتر  کی تمام رکعتوں میں قراءت کا فرض ہونا احتیاط کی وجہ سے ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے، اور فتح ا لقدیر میں یہ اضافہ کیا ہے کہ  وہ اس کے  ہر  قعدہ میں  التحیات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر درود شریف پڑھےگا  اور قیاس یہ ہے کہ وہ ہر شفعہ میں (قراءت سے پہلے) تعوذ بھی پڑھے گا، انتہی۔ مگر یہ بحث تام نہیں کیونکہ  یہ چار رکعت  سنت مؤکدہ کو شامل نہیں جیسا کہ ظہر سے پہلے کی سنت کیونکہ اس  کی تمام رکعتوں میں قراءت فرض ہے  باوجود اس کے کہ  تیسری رکعت میں قیام نئی تحریمہ کی طرح نہیں بلکہ وہ ایک ہی نماز ہے، اسی وجہ سے دوسرے شفعہ میں ثنا  ء اور قعدہ اولی میں درود شریف نہیں پڑھے گا۔ (البحر الرائق، جلد 2، صفحہ، 60، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

   صاحب بحر الرائق کے اس اعتراض کا جواب علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے رد المحتار  میں کچھ اس طرح دیا، ارشاد فرمایا: ’’هذا التعليل(لأن كل شفع صلاة) للزوم القراءة في كل النفل قاصر لا يعم الرباعية المؤكدة، لما قدمه المصنف من أنه لا يصلي على النبي - صلى الله عليه و سلم - في القعدة الأولى منها و لايستفتح إذا قام إلى الثالثة. و لو كان كل شفع منها صلاة لصلى و استفتح؛ و هذا الاعتراض لصاحب البحر. و قد يجاب عنه بما أشار إليه الشارح هناك من قوله لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة، يعني أن القياس فيها ذلك لكن لما أشبهت الفريضة روعي فيها الجانبان فأوجبوا القراءة في كل ركعاتها۔۔۔ و منعوا من الصلاة والاستفتاح نظرا للشبه کما فعلوا فی الوتر‘‘ ترجمہ: تمام نفل میں قراءت کے لزوم کی یہ علت (کہ نفل کا ہر شفعہ علیحدہ نماز ہے) قاصر  ہے جو کہ سنت مؤکدہ  کو شامل نہیں ہے، کیونکہ مصنف نے  اس بات کو پہلے بیان کردیا ہے  کہ اس (سنت مؤکدہ )کے قعدہ اولی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر درود شریف نہیں پڑھے  گا اور جب تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوگا  تو اس میں ثنا ءنہیں پڑھے گا، اگر اس کا ہر شفعہ علیحدہ نماز ہوتا  تو ضرور درود شریف اور ثنا ءپڑھتا، یہ صاحب  بحر الرائق کا اعتراض ہے، اور اس مقام پر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ جس کی طرف شارح نے یہاں اپنے اس قول سے اشارہ کیا ہے کہ وہ  مؤکدہ ہونے کی وجہ سے فرضوں کے مشابہ ہے یعنی قیاس تو اسی طرح ہے (کہ اس کی ہر دو رکعت علیحدہ نماز ہو) لیکن اس کے فرضوں کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اس میں دونوں جانبین کی رعایت کی گئی ہے، تو (نفل کے اعتبار سے) اس کی تمام رکعتوں میں قراءت واجب ہے۔۔۔ اور فرضوں سے مشابہ ہونے کی طرف نظر کرتے ہوئے درود اور ثنا ءسے ممانعت ہے، جیسا کہ فقہائے کرام نے وتر میں کیا (کہ سنت مؤکدہ کے احتمال کی وجہ سے اس کی تمام رکعتوں میں قراءت کو لازم کیا اور اس کے واجب ہونے کی وجہ سے قعدہ اولی میں درود شریف اور تیسری میں ثناء کو ممنوع فرمایا)۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 574،573، دار المعرفۃ، بیروت)

   ترتیب کے ساتھ قرآن پڑھنا تلاوت کے واجبات سے ہے اور خلاف ترتیب تلاوت ناجائز و گناہ ہے، چنانچہ رد المحتار میں ہے: ’’یجب الترتیب فی سور القرآن، فلو قرأ منکوسا أثم لكن لا يلزمه سجود السهو لأن ذلک من واجبات القراءۃ لا من واجبات الصلاۃ‘‘ ترجمہ: قرآن کی سورتوں میں ترتیب کا لحاظ رکھنا واجب ہے تو اگر کسی نے قرآن کو خلاف ترتیب پڑھا تو  گنہگار ہوگا، لیکن اس پر سجدہ سہو لازم نہیں کیونکہ قرآن کو ترتیب سے پڑھنا قراءت کے واجبات میں سے ہے، نماز کے واجبات میں سے نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 183، دار المعرفۃ، بیروت)

   فقہائے کرام نے وتر کے نفل ہونے کے احتمال کے سبب اس کی تمام رکعتوں میں قراءت کو احتیاطاً  واجب کیا، چنانچہ العنایۃ شرح الہدایہ میں ہے: ’’وجوب القراءة في جميع ركعات الوتر، فإن القراءة في الصلاة ركن مقصود لعينها، و كونه فرضا ثبت بالسنة ففيه احتمال النفلية فتجب القراءة في الجميع احتياطا‘‘ ترجمہ:وتر کی تمام رکعتوں میں قراءت  کا واجب ہونا(تو وہ اس لئے ہے کہ ) کیونکہ نماز میں قراءت بذاتِ خود ایک مقصود رکن ہے، اور اس(وتر ) کا فرض ہونا سنت سے ثابت ہے،تو وترمیں نفلی ہونے کا بھی احتمال پایا جاتا ہے، لہٰذا احتیاطاً تمام رکعتوں میں قراءت واجب ہوگی۔ (العنایۃ شرح الھدایۃ، جلد 1، صفحہ455 ، دار الفكر، بیروت)

   وتر کی تمام رکعتوں میں قراءت کو لازم ماننے سے یقینی طور پر برئ الذمہ ہوا جاسکتا ہے، لہذا احتیاطاً تمام رکعتوں میں قراءت کو لازم کیاکیونکہ  عبادات میں احتیاط  واجب ہے، چنانچہ  طوالع الانوار میں ہے: ’’تفرض القراءة في كل رکعات الوتر احتياطا و ھو الخروج من العھدۃ بیقین و هو فی العبادات اوجب و وجه الاحتياط ان القراءة في جمیع  الركعات في الفرض غير ممتنع و باعتبار شبھہ بالنفل تفرض القراءۃ  في كل ركعة فدارت  القراءۃ بین  الجواز المطلوب و الافتراض فكان الحكم بافتراضها هو الاحتياط لانہ يخرج من العهدة بيقين من غير محظور‘‘ ترجمہ: وتر کی تمام رکعتوں میں قراءت احتیاطاً فرض کی گئی ہے، کیونکہ اس سے یقین کے ساتھ ذمہ داری سے بری الذمہ ہونا حاصل ہوتا ہے، اور عبادات میں یہی زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ تمام رکعتوں میں قراءت کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے، (لیکن وتر  کے) نفل کے ساتھ مشابہ ہونے کا اعتبار کرتے ہوئے ہر رکعت میں قراءت فرض ہوگی۔ تو اس طرح قراءت دو صورتوں کے درمیان دائر ہوجائے گی ایک مطلوب جواز اور دوسری فرضیت۔ پس احتیاط کا تقاضا قراءت کو فرض قرار دینے میں ہے، کیونکہ اس سے بغیر کسی ممانعت کے یقین کے ساتھ ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ (طوالع الانوار، جلد 2، صفحہ 273، مخطوط)

   وتر کے سنت سے مشابہت کے سبب تمام رکعتوں میں قراءت کو احتیاطاً فرض کیا گیا، کیونکہ جس چیز کا ادا کرنا ذمہ پر لازم نہیں، اُسے  ادا کرنا، اس کے ترک سے بہتر ہے جو ذمہ پر لازم ہو، چنانچہ منیۃ المصلی  مع غنیۃ المتملی میں ہے: ’’(و القراءۃ فی جمیع رکعات النفل و کذا فی) جمیع رکعات (الوتر) لان لہ شبھا بالسنۃ و شبھا بالفرض فمن حیث شبھہ بالفرض تفرض القراءۃ فی الرکعتین فقط و من حیث شبھہ بالسنۃ تفرض فی الجمیع فتفرض احتیاطا و لان اداء ما لیس علیہ اولی من ترک ما علیہ‘‘  ترجمہ: اور نفل کی تمام رکعتوں میں قراءت واجب ہے، اسی طرح وتر کی تمام رکعتوں میں بھی، کیونکہ وتر کو سنت سے بھی مشابہت ہے اور فرض سے بھی۔ تو اس کے فرض سےمشابہت کی وجہ سے صرف دو رکعتوں میں قراءت فرض ہوگی، اوراس کے سنت سے مشابہت  کی وجہ سے تمام رکعتوں میں قراءت فرض ہوگی، لہٰذا احتیاطاً تمام رکعتوں میں قراءت فرض کردی گئی،اور  اس لیے کہ جو چیز لازم نہیں، اس کو ادا کرنا، تو یہ اس چیز کو ترک کرنے سے بہتر ہے جو لازم ہے۔ (منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی، صفحہ 241، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم