
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز کی شروع کی رکعات میں اگر کسی نے سورہ فاتحہ پڑھی اور بھولے سے رکوع کردیا، اور رکوع میں یاد آیا کہ سورت نہیں پڑھی ہے يا بھولے سے سورت پڑھ کر رکوع کردیا اور یاد آیا کہ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ کیا کرے؟ اگر وہ اس خیال سے واپس قیام کی طرف نہیں لوٹتا کہ آخر میں سجدہ سہو کرلوں گا اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلیتا ہے تو کیا یہ طریقہ درست ہے؟ یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ اگر بھولی ہوئی فاتحہ یا سورت سجدہ میں یاد آئے تو اب کیا حکم ہے؟ سائل : محمد زبیر علی (نارتھ کراچی )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سورہ فاتحہ کے بعد جہاں سورت (یا تین چھوٹی آیات یا تین چھوٹی آیات کے برابر ایک بڑی آیت ) ملانا واجب ہے، جیسے فرض نماز کی ابتدائی دو رکعات اور سنت و نفل کی تمام رکعات، تو ان میں اگر کوئی فاتحہ پڑھنے کے بعد سورت ملانا بھول گیا یا سورت تو پڑھی لیکن فاتحہ پڑھنا بھول گیا اور اس رکعت کے رکوع یا رکوع سے اٹھنے کے بعد قومہ میں یاد آیا تو اس کیلئے یہ حکم ہے کہ وہ واپس قیام کی طرف لوٹے، اگر صرف سورت بھولا تھا تو سورت ملائے اور اگر سورت پڑھی تھی لیکن فاتحہ بھولا تھا تو اب فاتحہ پڑھے اور سورت بھی دوبارہ ملائے، اس کے بعد رکوع دوبارہ کرے اورآخر میں سجدہ سہو کرلے، اس طرح کرلینے سے اس کی نماز مکمل ہوجائے گی۔
یاد رہے کہ رکوع یا قومہ میں یاد آجانے کے بعد واپس قیام کی طرف لوٹنے کا حکم وجوبی ہے، لہٰذا اگر کوئی یاد آجانے کے باوجود بھی نہ لوٹا تو اب آخر میں سجدہ سہو کرلینا کافی نہیں ہوگا، بلکہ جان بوجھ کر واجب کو ترک کرنے کے سبب نماز واجب الاعادہ قرار پائے گی یعنی اس نماز کو دوبارہ صحیح طریقے سے پڑھنا لازم ہوگا، ہاں ! اگر سجدے میں یادآیا تو اب وہ واپس قیام کی طرف نہ لوٹے بلکہ اپنی نماز کو جاری رکھے اور آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اس صورت میں اس نماز کے اعادے کی بھی حاجت نہیں۔
جن رکعتوں میں فاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے، ان میں بھولی ہوئی سورت سجدہ سے قبل یاد آجائے تو قیام کی طرف لوٹ کر اس کو پڑھے پھر رکوع دوبارہ کرے، امام شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ مبسوط میں فرماتے ہیں :
”فإن تذكر قراءة السورة في الركوع أو بعدما رفع رأسه منها عاد إلى قراءة السورة وانتقض به ركوعه؛ لأن القراءة ركن، فإذا طولها فالكل فرض فلمراعاة الترتيب بين الفرائض ينتقض الركوع لبقاء محل القراءة ما لم يقيد الركعة بالسجدة“
ترجمہ: پس اگر نمازی کو رکوع میں یا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سورت یاد آجائے، تو وہ سورت کی قراءت کی طرف واپس لوٹے گا اور اس کے سبب اس کا رکوع ٹوٹ جائے گا؛ کیونکہ قراءت نماز کا رکن ہے، اور جب وہ اسے لمبا کرے تو پوری قراءت فرض بن جاتی ہے، چنانچہ فرائض کے درمیان ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اس کا رکوع باطل ہو جائے گا، اس لئے کہ جب تک رکعت کو سجدے کے ذریعہ مقید نہ کر لے، اس وقت تک قراءت کا محل باقی ہے۔(المبسوط للامام السرخسی، ج01، ص 221، دار المعرفة )
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’لو قرأ الفاتحۃ و آیتین فخر راکعاً ساھیاً ثم تذکر عاد و اتم ثلاث آیات و علیہ سجود السھو‘‘
ترجمہ: نمازی اگر سورۃ الفاتحہ کے بعد دو(چھوٹی) آیات پڑھ کر بھولے سے رکوع میں چلا جائے، پھر اسے یاد آئے تو واپس لوٹے اور تین آیات مکمل کرے اوراس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، ج01، ص126، مطبوعہ پشاور)
اور اگر فاتحہ بھولا تو دوبارہ لوٹ کر فاتحہ پڑھے اور سورت کا بھی اعادہ کرے، محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام علیہ الرحمۃ فتح القدیر میں لکھتے ہیں :
”وإنما يتحقق ترك كل من الفاتحة والسورة بالسجود، فإنه لو تذكر في الركوع أو بعد الرفع منه يعود فيقرأ في ترك الفاتحة الفاتحة ثم يعيد السورة ثم الركوع فإنهما يرتفضان بالعود إلى قراءة الفاتحة وفي السورة السورة، ثم يعيد الركوع لارتفاضه بالعود إلى ما محله قبله على التعيين شرعا ويسجد للسهو“
ترجمہ: اور ہر ایک یعنی سورۂ فاتحہ اور سورت کے ترک کا تحقق اس رکعت کا سجدہ کرنے سے ہوگا، تو اگر رکوع میں یا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آئے تو اگر سورۂ فاتحہ چھوڑی ہے تو واپس لوٹ کر فاتحہ پڑھے گا، پھر سورت بھی دوبارہ پڑھے گا، پھر رکوع کرے گا، کیونکہ یہ دونوں (یعنی پہلے کیا ہوا رکوع اور سورت) قراءتِ فاتحہ کی طرف لوٹنے کی وجہ سے ختم ہو جائیں گے اور اگر سورت چھوڑی ہے تو سورت پڑھے گا، پھر رکوع کرے گا، کیونکہ رکوع کا باطل ہونا اس چیز کی طرف لوٹنے سے ہے جس کا محل شرعاً اس سے پہلے متعین ہے، اور آخر میں سجدۂ سہو کرے گا۔(فتح القدیر شرح الھدایۃ، ج01، ص 503، دار الفكر)
اور یہ عود الی القیام واجب ہے، یاد آنے کے باوجود نہ لوٹا، تو اعادہ واجب ہے، علامہ شیخ ابراہیم حلبی علیہ الرحمۃ غنیۃ المتملی میں لکھتے ہیں :
”یجب العود لاجلھما“
ترجمہ: سورہ فاتحہ اور سورت بھولنے کی وجہ سے قیام کی طرف لوٹنا واجب ہے۔(غنیۃ المتملی، ص461، کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں ارشادفرماتےہیں: ’’اگر سجدے میں جانے تک فاتحہ و آیات یاد نہ آئیں، تو اب سجدہ سہو کافی ہے اور اگر سجدہ کو جانے سے پہلے رکوع میں خواہ قومہ بعد الرکوع میں یاد آجائیں، تو واجب ہے کہ قراءت پوری کرے اور رکوع کا پھر اعادہ کرے اگر قراءت پوری نہ کی تو اب پھر قصداً ترک واجب ہوگا اور نماز کا اعادہ کرنا پڑے گااور اگر قراءت بعدالرکوع پوری کرلی اور رکوع دوبارہ نہ کیا، تو نماز ہی جاتی رہی کہ فرض ترک ہوا۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج6، ص330، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ایک دوسرے مقام پر امام اہل سنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہواکہ ’’نمازی کسی رکعت میں صرف الحمد پڑھے اور سہواً سورت نہ ملائے اور پھر سہو کا سجدہ کرے، تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟‘‘
آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: ’’جو سورت ملانا بھول گیا اگر اسے رکوع میں یاد آیا تو فوراً کھڑے ہوکر سورت پڑھے، پھر رکوع دوبارہ کرے، پھر نماز تمام کرے اور اگر رکوع كے بعد سجدہ میں یاد آیا، تو صرف اخیر میں سجدہ سہو کرلے نماز ہوجائے گی اورپھیرنی نہ ہوگی۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج08، ص 196، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0629
تاریخ اجراء: 04 ربیع الاول 1447ھ/29 اگست 2025ء