Tahajjud Ki Aadat Bana Kar Us Ko Chorne Ka Hukum

 

تہجد کی عادت بنا کر اس کو چھوڑنے کا حکم

مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-2037

تاریخ اجراء:10جمادی الاخریٰ1446ھ/13دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کہا جاتا ہے جب ایک دفعہ تہجد کی نماز شروع کر لی جائے تو اس کو چھوڑا نہ جائے بلکہ  اس کو ہمیشہ پڑھتے ہی رہنا چاہئے اگر چھوڑیں گے تو گناہ ہو گا کیا یہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تہجد کی نماز کے بے شمار فضائل و برکات ہیں مگر یہ نماز ہم پر فرض و واجب نہیں کہ اگر کوئی چھوڑدے تو گنہگار قرار پائے البتہ حدیث پاک کی روشنی میں جو شخص تہجد کا عادی ہو اسے بلاعذر محض سستی کے سبب تہجد چھوڑنا اچھا عمل نہیں ہے ۔  اگر کوئی عذر ہو تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صرف اس وجہ سے نماز تہجد سے رکے رہنا کہ بعد میں ساری زندگی پڑھنی ہو گی، درست سوچ نہیں۔ بالفرض عمل میں سستی ہو جاتی ہو تو بھی موقع ملنے پر بلکہ کوشش کر کے تہجد کی نماز ادا کرنی چاہیے ۔

   بہار شریعت میں ہے :” جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اُسے چھوڑنا مکروہ ہے۔ کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ارشاد فرمایا: اے عبداللہ! تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اُٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔ نیز   بخاری و مسلم وغیرہما میں ہے فرمایا کہ اعمال میں زیادہ پسند اللہ عزوجل کو وہ ہے جو ہمیشہ ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔“(بہار شریعت ،جلد1،صفحہ 678، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم