Tahiyatul Wazu Aur Tahajjud Ki Ek Sath Niyat Karna

 

تحیۃ الوضو اور تہجد کی ایک ساتھ نیت کرنا

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-3468

تاریخ اجراء: 15رجب المرجب 1446ھ/16جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا تحیۃ الوضو اور تہجد کی ایک ساتھ نیت کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! تہجد کی نماز ادا کرتے ہوئے تحیۃ الوضو کی نیت بھی کی جاسکتی ہے،بلکہ اگر وضو کرنے کے بعد  اعضا خشک ہونے سے پہلے پہلے کوئی بھی فرض، واجب، سنت یا نفل نماز ادا کر لی جائے،تو ضمناً  تحیۃ الوضو کے نفل بھی ادا ہوجاتے ہیں،البتہ حدیث پاک پر عمل  کا ثواب پانے کے لیے  اس کی بطورِ خاص نیت ہونا ضروری ہے۔

   مزید تفصیل یہ ہےکہ عباراتِ فقہاء کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر دونوں عبادتیں اصل نہ ہوں،بلکہ ایک مقصودی اور مستقل ہو اور دوسری ضمنی اور تبعی ہو ، تو تبعی، مستقل کے ضمن میں ادا ہو جائے گی،لہٰذا ایک ہی نیت میں ایسی مختلف نمازوں کو جمع کرنا درست ہو گا، جیساکہ تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضوکی نماز مستقل نمازنہیں،اس لیے فقہائے کرام نے صراحت فرمائی کہ وضو کرنے کے بعد مسجد میں آکر فرض ، واجب ، سنت یا کوئی اور نفل نماز ادا کی اور اسی میں  تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضوکی نیت کی تو وہ  بھی ادا ہو جائے گی ،بلکہ اگر تحیۃ المسجد و تحیۃ الوضو کی نیت نہ بھی کی تب بھی حق ِ مسجد اور حق ِ وضو ادا ہوگیا کہ نئے سرے سے نماز کی حاجت نہیں۔ 

   جو نماز مستقل نہ ہو بلکہ ضمنی ہو ، جیسے تحیۃ المسجد (اور صلاۃ التوبہ بھی ضمنی ہی ہے) اس کو دیگر نمازوں کے ساتھ جمع کر سکتے ہیں،جیسا کہ علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1088ھ/1677ء)لکھتےہیں:”ولو نافلتين كسنة فجر وتحية مسجد فعنهماترجمہ: اگر کسی شخص نے دو(الگ الگ)نفل کی نیت کی،جیسے فجر کی سنتیں اور تحیۃ المسجد،تو دونوں نمازیں ہوگئیں۔

   اوپر ذکر کردہ درمختار کی عبارت(ولو نافلتين)کےتحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) نے لکھا:”قد تطلق النافلة على ما يشمل السنة وهو المراد هنا“ ترجمہ:نفل کا اطلاق کبھی  سنت پر بھی ہوتا ہے اور یہاں پر یہی مراد ہے۔  (رد المحتار مع الدر المختار ،کتاب الصلاۃ، جلد2،صفحہ 155،مطبوعہ کوئٹہ)

   در مختار میں ہے” (ويسن تحية) رب (المسجد، وهي ركعتان، وأداء الفرض) أو غيره، وكذا دخوله بنية فرض أو اقتداء (ينوب عنها) بلا نية“ترجمہ:مسجد کے رب کی تحیت مسنون ہے اور وہ دو رکعتیں ہیں،اور فرض وغیرہ کی ادائیگی،یونہی مسجد میں داخل ہوتے ہی فرض یا اقتداء کی نیت سے ادا کی جانے والی نماز بھی بغیر تحیۃ المسجد کی نیت کے،تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہو جائے گی۔

   رد المحتار میں ہے" إن الأولى أن ينويها بذلك الفرض ليحصل له ثوابها أي ينوي بإيقاع ذلك الفرض في المسجد تحية لله تعالى أو تعظيم بيته لأن سقوطها به وعدم طلبها لا يستلزم الثواب بلا قصدها" ترجمہ: بہتر یہ ہے کہ  اس فرض کے ذریعےاس کی نیت کرے تاکہ  اسےاس کا ثواب حاصل ہو یعنی یہ نیت کرے کہ  مسجد  اس میں فرض  کواللہ تعالی کی تحیت یااس کے گھرکی تعظیم کےطورپراداکررہاہوں کیونکہ  تحیۃ المسجدکاسقوط اسی فرض کے ذریعے ہے اورتحیۃ المسجدکامطالبہ نہ ہواس بات کومستلزم نہیں کہ اس کی نیت کے بغیرثواب بھی حاصل ہوجائے گا۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،ج 2،ص 555،556،557،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی نوریہ میں سوال ہوا کہ چار رکعت نماز ادا کرتے ہوئے ،ساتھ ہی تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو  کی بھی نیت کر لی جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یعنی پڑھے گا چار رکعتیں اور نیت آٹھ کی کررہا ہے،تو اس کے جواب میں تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو کا ضمنی اور غیر مستقل ہونا حدیث پاک کی روشنی  میں واضح کرتے ہوئے مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1403ھ/1982ء) لکھتے ہیں: ”پھر یہ سنت بھی یوں مستقل  سنت نہیں کہ اس کا علیحدہ بہ نیتِ سنت پڑھنا ضروری ہو یا صرف مطلق نماز کی نیت سے استقلالاً ضروری ہو بلکہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے "رکعتین "حکم فرمایا ہے اور "رکعتین"  نکرہ ہے تو ہر وہ نماز جو دو رکعت پرمشتمل ہو،فرض ہو یا سنت، ادا ہو یا قضاء اس کے پڑھنے سے "رکعتین" کا پڑھنا صادق آجائے گا اور تعمیل ِارشاد ہو جائے گی،اگر چہ تحیۃ المسجد کی بھی نیت نہ کرے۔۔۔امام نووی اور قسطلانی  فرماتے ہیں:”و النظم للقسطلاني و تحصل بفرض او بنفل آخر سواء نويت معہ ام لا لان المقصود وجود صلوة قبل الجلوس وقد وجدت بما ذكر  ولا يضره نیة التحية لانها سنۃ غير مقصودة بخلاف نية فرض وسنة مقصودة فلا تصح۔ “(فتاویٰ نوریہ ،جلد1،صفحہ574 ، 575، مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

   عمل بالاحادیث کا ثواب نیت ہونے کی صورت میں ہی ملے گا،چنانچہ مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:”الحاصل وضو یاغسل یا تیمم کرنے والا جب مسجد میں داخل ہو اور فرض نماز یا واجب ادا کرے یا قضا پڑھے یا سنت یا نفل پڑھے تو نماز شکر الوضو  اور تحیۃ المسجد  ساتھ ہی ادا ہوجائیں گی،ہاں! عمل بالاحادیث  کا ثواب نیت پر موقوف  ہے ، نیت ،تحیۃ  اور شکر کی کرلے،تو ثواب بڑھ جائےگا  اور یہ اللہ رب العالمین  کے فضل عمیم بجاہ الحبیب الکریم علیہ الصلوۃ  والتسلیم سے کچھ بعیدنہیں۔(فتاویٰ نوریہ ،جلد1،صفحہ580،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم