
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
عورت تراویح کی رکعتیں بھول جاتی ہے، اگر وہ چار چار کر کے پڑھنا چاہے، تو کیا پڑھ سکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ مرد بھی اگر چار چار رکعت کر کے تراویح ادا کر یں، اور ہر دو رکعت پر قعدہ کریں تو تراویح ادا ہو جائے گی، لیکن طریقۂ متوارثہ (صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تابعین کرام رحمہم اللہ سے اب تک جوطریقہ چلتا آرہا ہے، وہ) یہی ہے کہ بیس رکعت تراویح دس سلام کے ساتھ یعنی دو دو رکعت کر کے ادا کی جائے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ دو دو رکعت کر کے پڑھی جائے۔
بھولنے سے اگر یہ مراد ہے کہ نماز کے دوران رکعتیں بھول جاتی ہیں تو دو رکعت کو یاد رکھنا آسان اور چار رکعتوں کو یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے لہذا دو دو کر کے پڑھنے کو ترجیح حاصل ہو گی۔ اور اگر یہ مراد ہے کہ دو دو کر کے پڑھی جانے والی رکعتیں شمار کرنے میں بھول واقع ہو جاتی ہے کہ ایک شفعہ ادا کیا ہے یا دو؟ تو اس کا یہ حل نکالا جا سکتا ہے کہ تسبیح یا کھجور کی گٹھلی وغیرہ اپنے پاس رکھ لیں اور ہر دو رکعت پڑھنے پر ان کو الگ کرتے جائیں، یوں شمار کرنے میں بھول واقع نہیں ہوئی اور دوران نماز بھی کوئی عمل نہیں کرنا پڑے گا۔
امام اہل سنت، احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”تراویح خود ہی دو رکعت بہتر ہے۔
لانہ ھو المتوارث
(کیونکہ طریقۂ متوارثہ یہی ہے) تنویر میں ہے:
عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات
(بیس رکعتیں دس سلاموں کے ساتھ پڑھائی جائیں) سراجیہ میں ہے:
کل ترویحۃ اربع رکعات بتسلیمتین۔
یعنی: ہر ترویحہ چار رکعتوں کا دو سلاموں کے ساتھ پڑھا جائے۔ یہاں تک کہ اگر چار یا زائد ایک نیت سے پڑھے گا تو بعض ائمہ کے نزدیک دو ہی رکعت کے قائم مقام ہوں گی اگرچہ صحیح یہ ہے کہ جتنی پڑھیں شمار ہوں گی جب کہ ہر دو رکعت پر قعدہ کرتا رہا ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 07، صفحہ 443 ، 444، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2123
تاریخ اجراء: 01 شعبان المعظم 1446ھ / 31 جنوری 2025ء