تراویح میں امام کا مقتدی سے غلط لقمہ لینے پر حکم

تراویح میں امام نے مقتدی کا غلط لقمہ لے لیا

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3664

تاریخ اجراء:19 رمضان المبارک 1446 ھ/20 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر تراویح میں امام نے مقتدی کا غلط لقمہ لے لیا تو کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر تراویح میں ختم قرآن کااہتمام کیاجائے اور تلاوت قرآن کے اندر مقتدی غلط لقمہ دے اوراس کا دیا ہوا غلط لقمہ امام لےلے توبوجہ حرج امیدہے کہ  نماز میں فساد نہیں آئے گا، اور اگر تراویح میں تلاوت کے علاوہ کسی اور موقع پر مقتدی  نے غلط  یابے محل لقمہ دیاتومقتدی کی نمازٹوٹ ہوگئی اوراس کا دیا ہوا ایسا لقمہ امام نے لیا تو امام کی نماز ٹوٹ گئی،جب امام کی نماز ٹوٹ گئی تو سب مقتدیوں کی بھی ٹوٹ گئی۔

   تراویح میں قرأت کے اندر غلط لقمہ دینے سے نما زفاسد نہ ہوگی جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے: ”فقیر امیدکرتاہے کہ شرع مطہر ختم قرآن مجید فی التراویح میں اس باب میں تیسیر فرمائے کہ سامع کاخود غلطی کرنا بھی نادر نہیں اور غالباً قاری اسے لے لیتا یا اس کے امتثال کے لئے اوپر سے پھر عودکرتاہے تواگر ہرباربحال سہو فساد نماز کاحکم دیں اور قرآن مجید کااعادہ کرائیں حرج ہوگا والحرج مدفوع بالنص (اور حرج کا  مدفوع ہونا نص سے ثابت ہے)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 285، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے "ہمارے امام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ بتانا اگرچہ لفظاً قرأت یاذکر مثلاً تسبیح وتکبیر ہے اور یہ سب اجزا ء واذکار نماز سے ہیں مگر معنیً کلام ہے کہ اس کا حاصل امام سے خطاب کرنا اور اسے سکھانا ہوتاہے یعنی توبھولا، اس کے بعد تجھے یہ کرناچاہئے، پرظاہر کہ اس سے یہی غرض مراد ہوتی ہے اور سامع کوبھی یہی معنی مفہوم، تو اس کے کلام ہونے میں کیاشک رہا اگرچہ صورۃً قرآن یاذکر، و لہٰذا اگرنماز میں کسی یحیٰ نامی کو خطاب کی نیت سے یہ آیہ کریمہ(یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ)پڑھی بالاتفاق نماز جاتی رہی حالانکہ وہ حقیقۃً قرآن ہے، اس بنا ءپرقیاس یہ تھا کہ مطلقاً بتانا اگرچہ برمحل ہو مفسد نماز ہو کہ جب وہ بلحاظ معنی کلام ٹھہرا تو بہرحال افساد نماز کرے گا مگرحاجت اصلاح نماز کے وقت یا جہاں خاص نص وارد ہے ہمارے ائمہ نے اس قیاس کوترک فرمایا اور بحکم استحسان جس کے اعلٰی وجوہ سے نص وضرورت ہے جواز کاحکم دیا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 257 ،258، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   غلط لقمہ  دینے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور امام لقمہ لے تو اس کی اور سب مقتدیوں کی بھی فاسد ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے ”جب اسے شبہ ہے توممکن کہ اسی کی غلطی ہو اور غلط بتانے سے اس کی نمازجاتی رہے گی اور امام اخذ کرے گا تو اس کی اور سب کی نمازفاسد ہوگی۔ توایسے امرپراقدام جائزنہیں ہوسکتا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 287، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم