
مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3632
تاریخ اجراء:11رمضان المبارک1446ھ/12مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا تراویح اور تہجد ایک ہی نما زہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نمازِ تراویح الگ نماز ہے اور نما زِتہجد الگ، نما زتہجد سنت مستحبہ( غیر مؤکدہ) ہے اور اس کی ادائیگی پورا سال ہوتی ہے جبکہ نمازِ تراویح کی بیس رکعات ہرعاقل وبالغ مسلمان مردوعورت کے لیےسنتِ مؤکدہ ہیں اور اس کی ادائیگی صرف رمضان شریف میں ہوتی ہے۔
نماز تراویح اور نماز تہجد کے الگ الگ نماز ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ محدثین اور فقہاء دونوں گروہ علما نے اپنی کتابوں میں ان نمازوں کے لئے جدا جدا باب باندھے ہیں، اگر یہ ایک نماز ہوتی تو الگ الگ باب نہ باندھے جاتے مثلا امام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری شریف میں نماز تراویح کا باب اس عنوان سے باندھا ہے "کتاب صلاۃ التراویح" اور نماز تہجد کا باب اس عنوان سے باندھا ہے "باب فضل التہجد"
صحیح مسلم میں تراویح کا باب اس عنوان سے باندھاگیا ہے "باب الترغيب في قيام رمضان، و هو التراويح" اور تہجد کا باب اس عنوان سے باندھا گیاہے "باب صلاۃ اللیل"
غرض! ان کو ایک نماز بتانا یا دونوں کے الگ الگ ہونے کا انکار کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔
نمازِ تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے تین راتیں نمازِ تراویح کی امامت فرماکربخوفِ فرضیت ترک فرمادی،پھرامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے باقاعدہ حُفَّاظ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو امام مقررفرماکر لوگوں کوان کے پیچھے نمازِ تراویح پڑھنے کاحکم ارشادفرمایا، جس پر تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عمل کیا،پھر حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما نے بھی اپنے دورِخلافت میں اس عمل پر مواظبت فرمائی،تویوں اکثر خلفائے راشدین کے عمل کی وجہ سے یہ سنت مؤکدہ بن گئی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’عليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين‘‘ ترجمہ:تم پرمیری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے۔(سنن ابی داؤد، باب فی لزوم السنۃ، رقم الحدیث 4607، ج 4، ص 200، المكتبة العصرية، بيروت)
صحیح بخاری میں ہے ”عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه، ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، و يصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: «إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد، لكان أمثل» ثم عزم، فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، و الناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر: «نعم البدعة هذه“ ترجمہ: حضرت عبد الرحمٰن بن عبد القاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں رمضان میں ایک رات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا، تو اس وقت لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے تھے، کوئی اکیلے نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی شخص نماز پڑھا رہا تھا تو اس کے پیچھے ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مناسب سمجھتا ہوں اگر میں ان کو ایک امام کے پیچھے جمع کردوں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا، پھر آپ نے ارادہ فرمایا، تو ان لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے جمع فرمادیا، پھر میں دوسری رات آپ کے ساتھ نکلا، تو لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث 2010، ج 3، ص 45، دار طوق النجاۃ)
السنن الکبری للبیہقی میں ہے: ’’عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي الله عنه قال: دعا القراء في رمضان فأمر منهم رجلا يصلي بالناس عشرين ركعة قال: و كان علي رضي الله عنه يوتر بهم، و روي ذلك من وجه آخر‘‘ ترجمہ: حضرت عبدالرحمن سلمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا اوران میں سے ایک شخص کوبیس رکعت تراویح پڑھانے کاحکم دیااورخودحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان کو وترپڑھاتے تھے۔یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اوربھی اسانیدسے مروی ہے۔(السنن الکبری للبیہقی، رقم الحدیث 4291، ج 2، ص 699، دار الكتب العلمية، بيروت)
امام ترمذی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ’’و أكثر أهل العلم على ما روي عن عمر، و علي، و غيرهما من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم عشرين ركعة“ ترجمہ: اکثراہل علم کامذہب بیس رکعت تراویح ہے، جو حضرت عمر اور حضرت علی وغیرہ اصحابِ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم سے مروی ہے۔(سنن الترمذی، رقم الحدیث 806، ج 3، ص 160، مطبوعہ مصر)
اکثرخلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کے بارے میں در مختار میں ہے ”التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال و النساء اجماعاً‘‘ ترجمہ: تراویح خلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کے لیے بِالْاِجماع سنتِ مؤکدہ ہے۔
مذکورہ بالاعبارت کے تحت ردالمحتارمیں ہے: ’’أی: أکثرھم، لأن المواظبۃ علیھاوقعت فی أثناء خلافۃ عمر رضی اللہ عنہ، و وافقہ علی ذلک عامۃ الصحابۃ و من بعدھم الی یومنا ھذا بلا نکیر‘‘ ترجمہ: یعنی اکثرخلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے کیونکہ اس پرمواظبت حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دوران ہوئی اورسب صحابہ نے ان کی اس پرموافقت فرمائی اوران کے بعدسے آج تک کسی نے انکارنہ کیا۔(در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 43، دار الفکر، بیروت)
اورتارکِ تراویح کاحکمِ شرعی بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں: ’’سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے تین شب تراویح میں امامت فرماکربخوفِ فرضیت ترک فرمادی، تو اس وقت تک وہ سنت مؤکدہ نہ ہوئی تھی، جب امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے اِجرافرمایا اور عامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس پرمجتمع ہوئے، اس وقت سے وہ سنت مؤکدہ ہوئی، نہ فقط فعلِ امیر المؤمنین سے، بلکہ ارشاداتِ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم سے، اب ان کاتارک ضرورتارکِ سنتِ مؤکدہ ہے اور ترک کاعادی فاسق وعاصی۔“(فتاوی رضویہ، ج 07، ص 471، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
غنیۃ المتملی میں ہے ”من النوافل المستحبۃ قیام اللیل‘‘ ترجمہ: نوافل مستحبہ میں سے رات کی نماز (یعنی تہجد بھی) ہے۔(غنیۃ المتملی، فصل فی النوافل، قیام اللیل، صفحہ 432، مطبوعہ :کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’تہجد سنت مستحبہ ہے، تمام مستحب نمازوں سے اعظم واہم، قرآن واحادیث حضورپرنورسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ و سلم اس کی ترغیب سے مالامال، عامہ کتب مذہب میں اسے مندوبات ومستحبات سے گِنا اور سنت مؤکدہ سے جُدا ذکرکیا، تو اس کا تارک اگرچہ فضل کبیر وخیرکثیر سے محروم ہے گنہگارنہیں۔"(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 401،400، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم