واجب الاعادہ نمازیں ذمہ پر ہونے سے صاحبِ ترتیب رہیگا؟

صرف واجب الاعادہ نمازیں ذمہ پر ہونے سے صاحبِ ترتیب رہے گا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9096

تاریخ اجراء:13 ربیع الاول1446ھ/18ستمبر   2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید نے اپنی فرض قضا نمازیں مکمل کر لی ہیں، لیکن زید پر تین سال کی نمازِ ظہر کی سنتِ قبلیہ کی ادائیگی واجب الاعادہ ہے، کیا زید نماز میں صاحب ترتیب  ہے یا نہیں؟ زید پر نماز ظہر کی سنت قبلیہ اس طرح واجب ہوئی کہ زید نماز ظہر کی سنت قبلیہ کی پہلی دو رکعت میں سورت فاتحہ کے ساتھ سورت ملاتا تھا، لیکن آخری دو رکعت میں سورت ملا کر نہیں پڑھتا تھا، اس کے بعد جب یہ معلوم ہوا ہے کہ چاروں رکعتوں میں سورت ملانا واجب ہے، تب سے سورت ملا کر ہی سنتیں  ادا کرتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورتِ مذکورہ میں جب زید کی کوئی فرض نماز قضا نہیں، تووہ صاحبِ ترتیب ہے، کسی ترکِ واجب کے سبب ذمہ پر واجب سنتِ مؤکدہ کی وجہ سے اُس کے صاحب ِ ترتیب ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔

   تفصیل یہ ہے کہ صاحبِ ترتیب کی ترتیب ساقط ہونے کا تعلق فرضِ اعتقادی کےفوت ہونے سے ہے، نہ کہ واجب،یا سنت، وغیرہ کے فوت ہونے یا ذمہ پر واجب ہونے سے، فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جس کی چھ فرض نمازیں  قضا ہوجائیں، وہ صاحب ترتیب نہیں رہتا،لیکن جس کی پانچ فرض نمازیں اوروتر قضا ہوئے ہوں، وہ صاحبِ ترتیب ہی رہتا ہے، کیونکہ اگرچہ یہ چھ نمازیں ہورہی ہیں، مگر وتر فرضِ اعتقادی نہیں، بلکہ واجب لعینہٖ ہے، اِس لیے یہ ترتیب کو ساقط نہیں کرے گا، اِس پر فقہائے کرام کا اجماع ہے، تو جب وتر جو کہ واجب لعینہ یعنی براہِ راست شریعت کی طرف سے واجب ہے، وہ ترتیب کو ساقط نہیں کرتا،تو ایسی سنتِ مؤکدہ جو ترکِ واجب کے سبب ذمّہ پر واجب ہوجائیں، وہ کیسے ترتیب کو ساقط کریں گی؟ لہٰذا ذکر کردہ صورت میں زید شرعاًصاحبِ ترتیب ہے۔

   ترتیب صرف فرضِ اعتقادی کی وجہ سے ساقط ہوتی ہے، چنانچہ علامہ شمس الدین تمرتاشی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1004ھ) لکھتے ہیں: اوفاتت ست اعتقادیۃ ترجمہ: جس شخص کی چھ فرضِ اعتقادی  نمازیں فوت ہو جائیں (وہ صاحبِ ترتیب نہیں رہے گا)۔(الدر المختارمع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 638، مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ طَحْطاوی  حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں: ”خرج العملی وھو الوتر فان الترتیب بینہ وبین غیرہ وان کان فرضالکنہ لایحسب مع الفوائت انتھی حلبی وکانہ لانہ لاوقت لہ باستقلالہ“ ترجمہ: (اعتقادی کی قیدسے)فرض عملی یعنی وترخارج ہوگئے، کیونکہ وتر اورفرض کے درمیان، اگرچہ ترتیب فرض ہے، لیکن فوت شدہ نمازوں میں وتر کو شمارنہیں کیا جائے گا، حلبی۔ وترکوشمارنہ کرنے کی وجہ گویا یہ ہے کہ اس کے لیے مستقل الگ سے کوئی وقت نہیں ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 305، مطبوعہ کوئٹہ)

   اِسی عبارت کے تحت محقق شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں: ”خرج الفرض العملی و ھو الوتر، فان الترتیب بینہ و بین غیرہ و ان کان فرضا لکنہ لایحسب مع الفوائت ای: لانہ لاتحصل بہ الکثرۃ المفضیۃ للسقوط لانہ من تمام وظیفۃ الیوم واللیلۃ والکثرۃ لاتحصل الابالزیادۃ علیھامن حیث الاوقات اومن حیث الساعات،ولامدخل للوترفی ذلک۔ امداد“ یعنی: (اعتقادی کی قید سے) فرضِ عملی یعنی وترخارج ہو گئے، اس لیے کہ وتراورفرض کے درمیان اگرچہ ترتیب فرض ہے، لیکن فوت شدہ نمازوں میں وترکوشمارنہیں کیا جاتا، کیونکہ وترکے قضا ہونے سے ترتیب کے سقوط تک پہنچانے والی کثرت حاصل نہیں ہوتی، اس لیے کہ  وترایک دن اور ایک رات کے وظائف کاہی حصہ ہے، جبکہ اوقات و ساعات کے اعتبارسے کثرت ایک دن ایک رات پرزیادتی سے حاصل ہوتی ہے، وترکااس زیادتی میں کوئی دخل نہیں۔“(رد المحتار مع الدر المختار، جلد 2، صفحہ 638، مطبوعہ کوئٹہ)

   وتر کے ترتیب کے لیے مُسقِط نہ ہونے پر اجماع ہے، جیساکہ تبیین الحقائق، مراقی الفلاح، طحطاوی علی المراقی، وغیرہا کتبِ فقہ میں  ہے:لا یعد مسقطا في كثرة الفوائت بالاجماعیعنی وتر کو بالاجماع ترتیب ساقط کرنے والا شمار نہیں کیا جائے گا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، صفحہ 444، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم