
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کےبارےمیں کہ میں اپنے آبائی شہر ملتان سے اپنے اہل و عیال سمیت لاہور شفٹ ہو گیا ہوں اور اب یہیں مستقل رہنے کی نیت کر لی ہے، کہیں اور جانے کی نیت نہیں، البتہ ملتان میں میری کچھ زمینیں اورگھر ہے، اس لیے کبھی کبھار ملتان آنا جاناہوگا۔ تو کیا ملتان اب بھی میرا وطن اصلی ہےیا نہیں؟ اور جب میں لاہور سے ملتان پندرہ دن سے کم رہنے کے ارادے سے جاؤں گا تونماز قصر پڑھوں گا یا پوری پڑھوں گا؟
نوٹ: سائل نے وضاحت کی کہ ملتان کو چھوڑنے کے عزم و ارادہ سے لاہور منتقل ہوا ہوں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جب ایک جگہ آدمی کا وطن اصلی ہو اور وہ اسے ترک کرنے کے عزم و ارادہ سے اپنے اہل و عیال سمیت کسی دوسری جگہ منتقل ہو جائے اور وہاں مستقل رہنے کی نیت کرلے، تو پہلی جگہ ا س کے لیے وطن اصلی نہیں رہتی اگرچہ وہاں اس کی زمینیں اور گھر موجود ہو۔ پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ بھی اپنےاہل و عیال سمیت ملتان کو چھوڑنے کے عزم وارادہ سے مستقل طور پر لاہور منتقل ہوگئے ہیں، لہٰذاملتان میں چاہے آپ کی زمینیں اورگھر موجود ہے تب بھی وہ آپ کا وطن اصلی نہ رہا اور جب آپ پندرہ دن سے کم رہنے کے ارادے سے ملتان جائیں گے تو نماز قصر پڑھیں گے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی فضیل رضا عطّاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2025ء