
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ سائل نے وطن اقامت سے وطن اصلی کی طرف سفر کیا لیکن جیسے ہی وہ اپنے شہر میں داخل ہوا اس نے آگے سفر کیا، اپنے گھر نہیں گیا ۔ جس جگہ سفر کیا وہ گھر سے یعنی وطن اصلی سے شرعی سفر نہیں بنتا، جہاں سائل نے سفر کیا اپنے شہر سے آگے وہاں پوری نماز پڑھے گا یا قصر؟ رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جب کوئی شخص سفر کرتے ہوئے اپنے شہرکی آبادی میں داخل ہو گیا، تو اب وہ مقیم ہو گیا، اگرچہ گھر نہیں گیا۔ سفر کے تمام احکام ختم ہو گئے، کیوں کہ پورا شہر حکما ایک ہی جگہ شمار کیا جاتا ہے۔ اب اگر وہ یہاں سے کسی اور جگہ جاتا ہے جو شرعی مسافت پر نہیں تو وہ مقیم ہی ہے۔ پوری نماز ادا کرے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
و اذا دخل المسافر مصرہ اتم الصلاۃ و ان لم ینو الاقامۃ فیہ سواء دخلہ بنیۃ الاجتیاز او دخلہ لقضاء الحاجۃ
ترجمہ: جب مسافر اپنے وطن اصلی میں داخل ہو جائے تو وہ پوری نماز پڑھے گا، اگرچہ اس کی اقامت کی نیت نہ ہو، خواہ وہ گزرنے کی نیت سے داخل ہوا ہو یا کسی کام کی وجہ سے اپنے شہر میں داخل ہوا ہو۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 142، مطبوعہ: پشاور)
بدائع الصنائع میں ہے
إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان مصرا واحدا أو قرية واحدة صار مقيما؛ لأنهما متحدان حكما، ألا يرى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر
ترجمہ: مسافر نے دو جگہوں پر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی، تو اگر وہ ایک ہی شہر یا ایک ہی گاؤں کی دو جگہیں ہیں، تو یہ شخص مقیم ہو جائے گا، کیوں کہ یہ دونوں جگہیں حکماً ایک ہی ہیں۔ کیا نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہوئے جائے تو وہ قصر نہیں کرتا۔ (بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 98، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4101
تاریخ اجراء: 11 صفر المظفر 1447ھ / 06 اگست 2025ء