
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا نمازِ وتر میں مشہور دعائے قنوت ’’اللهم إنا نستعينك۔۔۔۔الخ‘‘ کا پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نمازِ وتر میں کوئی سی بھی ماثور دعا پڑھی جاسکتی ہے، البتہ مشہور دعائے قنوت ’’اللهم إنا نستعينك۔۔۔۔الخ‘‘ کا پڑھنا افضل و مستحب ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، کنز العمال وغیرہ کتبِ احادیث میں ہے:
”و النظم للاول: ’’عن أبي عبد الرحمن قال علمنا بن مسعود أن نقول في القنوت يعني في الوتر اللهم إنا نستعينك۔۔۔۔الخ‘‘
ترجمہ: حضرتِ سیدنا ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہمیں حضرتِ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سکھایا کرتے تھے کہ ہم قنوت یعنی وتر میں یہ دعا پڑھیں’’اللهم إنا نستعينك"۔۔۔۔الخ۔“ (مصنف ابن أبي شيبة، کتاب الدعاء، ج06،ص89، مطبوعہ ریاض)
مشہور دعائے قنوت کا پڑھنا مستحب و افضل ہے۔ جیسا کہ امام ابن عبد البر(متوفی: 463ھ)
’’الاستذكار‘‘ میں، قاضی عیاض بن موسیٰ (متوفی: 544ھ) ’’اکمال المعلم‘‘میں فرماتے ہیں:
”و النظم للاول“ واختلف الفقهاء فيما يقنت به من الدعاء فقال الكوفيون ومالك ليس في القنوت دعاء موقت ولكنهم يستحبون ألا يقنت إلا بقولهم اللهم إنا نستعينك۔۔۔الخ“
یعنی وتر میں کون سی دعائےقنوت پڑھی جائے؟ اس بات میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔ البتہ کوفیوں اور امام مالک علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ قنوت میں کوئی خاص دعا مقرر نہیں ہے، لیکن اُن کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ نمازی ’’اللهم إنا نستعينك‘‘ والی دعائے قنوت ہی پڑھے۔ (الاستذكار، كتاب صلاة الجماعة، ج02،ص295، دار الكتب العلمية، بيروت) (اکمال المعلم بفوائد مسلم، ج02، ص658-659، مطبوعہ دارالوفاء، مصر)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
”(وقنت فيه) ويسن الدعاء المشهور“
یعنی وتر کی تیسری رکعت میں نمازی دعائے قنوت پڑھے اور مشہور دعائے قنوت کا پڑھنا سنت ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 534-533،کوئٹہ)
محیطِ برہانی، بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:
”و النظم للاول: ’’والأولى أن يقرأ: اللهم إنا نستعنيك ويقرأ بعده اللهم اهدنا فيمن هديت“
یعنی بہتر یہ ہے کہ نمازی وتر میں یہ دعا ’’اللهم إنا نستعنيك‘‘ پڑھے اور اس دعا کے بعد یہ دعا ’’اللهم اهدنا فيمن هديت‘‘پڑھے۔ (الميحط البرهاني، الفصل الثالث عشر في التراويح والوتر، ج 01، ص 470،دارالکتب العمیہ)
بحر الرائق میں ہے:
”فالاولى أن يقرأه ولو قرأ غيره جاز، ولو قرأ معه غيره كان حسنا“
یعنی بہتر یہ ہے کہ نمازی وتر میں مشہور دعائے قنوت پڑھے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور دعا پڑھی تو یہ بھی جائز ہے، اگر اس دعا کےساتھ کوئی دوسری دعا پڑھ لے تو یہ زیادہ اچھا ہے۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 45، دار الكتاب الإسلامي)
بہارشریعت میں ہے: ”دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے اور اس میں کسی خاص دعا کا پڑھنا ضروری نہیں، بہتر وہ دعائیں ہیں جو نبی صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم سے ثابت ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور دعا پڑھے جب بھی حرج نہیں، سب میں زیادہ مشہوردُعا یہ ہے۔’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ ‘‘۔۔۔الخ۔“ (بھارشریعت، ج01، ص 654، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13718
تاریخ اجراء: 22شعبان المعظم1446 ھ/21فروری 2025 ء