وتر میں دعائے قنوت مکمل نہ پڑھنے سے نماز کا حکم

وتروں میں دعائے قنوت مکمل نہیں پڑھی تو وتر ہوجائیں گے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9251

تاریخ اجراء:27 رجب المرجب 1446ھ / 28 جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ اگر کوئی وتر  میں دعائے قنوت پڑھتے ہوئے  بھول جائے، یعنی ”وَنَشْكُرُكَ “ تک پڑھے  اور اگلے کلمات بھول جائے اور اِسی طرح رکوع کر لے، تو کیا اُس کے وتر ادا ہو گئے یا دوبارہ پڑھنے ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں وتر ادا ہو گئے،  دوبارہ پڑھنے کی حاجت نہیں۔

   بیان کردہ حکم شرعی کی تفصیل یہ ہے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قراءت کے بعد دعا  پڑھنا ”واجب“ ہے، اور یہ واجب کسی بھی دعا سے پورا ہوجاتا ہے، البتہ مشہور دعا پڑھنا یا احادیث میں موجود دیگر دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھنا اور اسے مکمل پڑھنا مستحب ہے، یعنی اگر کوئی بطورِ دعا اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَ نَسْتَغْفِرُکَپڑھتا ہے اور مزید پڑھے بغیر رکوع میں چلا جاتا ہے، تو اُس کا واجب ادا ہو گیا، البتہ مکمل دعا نہ پڑھنے کے سبب ”مستحب“ کو چھوڑنا پایا گیا۔

   واجب کی ادائیگی اِس لیے ہو گئی کہ دراصل اِس مقام پر دعا کا پڑھنا واجب ہے اور جتنی مقدار سے دعا کا معنی  پایا  جائے، اُسی مقدار سے واجب ادا ہو جائے گااور مزید اُس دعا کو مکمل پڑھنا درجہِ مستحب کا عمل قرار پائے گا، اِسی لیے فقہائے کرام نے  فرمایا کہ اگر باجماعت وتر پڑھے جا رہے ہوں اور امام کی دعائے قنوت  جلدی مکمل ہو جائےاور وہ رکوع میں چلا جائے،  جبکہ مقتدی ابھی دعائے قنوت پڑھ رہا تھا، تو مقتدی کو حکم یہ ہے کہ وہ  دعائے قنوت چھوڑ کر متابعتِ امام کرتے ہوئے رکوع میں چلا جائے، کیونکہ مکمل دعا پڑھنا مستحب اور امام کی متابعت واجب ہے، لہذا واجب عمل کو ترجیح دی جائے گی۔

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1252ھ/ 1836ء) لکھتے ہیں: أن المراد بالقنوت هنا الدعاء الصادق علی القلیل و الكثير، و ما أتى به منه كاف في سقوط الواجب، و تكميله مندوب۔ ترجمہ: یہاں قنوت سے مراد دعاہے، جو کہ تھوڑی اور زیادہ، دونوں مقداروں پر صادق  آسکتی ہے، لہذا دعائے قنوت میں سے جتنا پڑھ دیا گیا، وہ واجب کے ساقط ہونے کے لیے کافی ہے اور دعائے قنوت کو مکمل پڑھنا مستحب ہے۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 04، باب الوتر و النوافل، صفحہ 245، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)

   اِسی لیے فقہائے کرام نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ اگر وتر کو باجماعت پڑھا جا رہا ہو اور امام دعائے قنوت جلدی مکمل کر کے رکوع میں چلا جائے اور مقتدی ابھی پڑھ رہا ہو،  تو مقتدی کو یہی حکم ہے کہ وہ بھی دعائے قنوت پڑھنے کو منقطع کر کے امام کی متابعت کرتے ہوئے رکوع میں چلا جائے، چنانچہ ”تنویر الابصار و در المختار“ میں ہے: (ركع الإمام قبل فراغ المقتدي) من القنوت قطعه و (تابعه)۔ ترجمہ: امام نے مقتدی کی دعائے قنوت مکمل ہونے سے پہلے رکوع کر دیا تو مقتدی کو حکم ہے کہ اپنی دعا کو موقوف کر دے اور امام کی متابعت کرتا ہوا رکوع میں چلا جائے۔(تنویر الابصار و در المختار مع رد المحتار، جلد 04، باب الوتر و النوافل، صفحہ 245، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)

   اِس مسئلہ کی علت یہ ہے کہ ”متابعتِ امام“ واجب ہے اور ”دعائے قنوت“ کو مکمل پڑھنا مستحب ہے، لہذا واجب کی ادائیگی کے لیے مستحب کو چھوڑ دیا جائے گا، جیسا کہ علامہ  شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے علامہ رحمتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے نقل کرتے ہوئے لکھا: المتابعة واجبة فيترك المندوب للواجب۔ترجمہ:متابعتِ امام واجب ہے، لہذا واجب کی ادائیگی کے لیے مستحب کو چھوڑ دیا جائے گا۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 04،باب الوتر و النوافل، صفحہ 245، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)

   دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے، مگر کسی مخصوص دعا  اور اُسے مکمل پڑھنا، یہ دونوں چیزیں واجب نہیں ہیں، چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں: دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے اور اس میں کسی خاص دعا کا پڑھنا ضروری نہیں، بہتر وہ دعائیں ہیں،  جو نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے ثابت ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور دعا پڑھے،  جب بھی حرج نہیں۔(بھار شریعت، جلد 01، حصہ04، صفحہ 654، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم