Zawal Ke Waqt Sajda Na Karne Ki Hikmat

 

زوال کے وقت سجدہ نہ کرنے کی حکمت

مجیب:مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3509

تاریخ اجراء: 14رجب المرجب 1446ھ/15جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   زوال کے وقت سجدہ نہ کرنے کی  شریعت کی رو سے وجہ کیا ہے رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تین مکروہ  اوقات میں (سورج طلوع ہوتے وقت،زوال کے وقت اورسورج غروب ہوتے وقت) نمازاورسجدہ کی ممانعت کی وجہ  مجوسیوں کےساتھ مشابہت  بیان کی گئی ہے ، کہ  ان اوقات میں مجوسی سورج کی پوجا کرتے ہیں اوراسے سجدہ کرتے ہیں لہذا مسلمانوں کو ان اوقات میں سجدہ کرنے سے منع فرمادیا گیاہے  تاکہ کافروں اور مسلمانوں کی عبادات میں وقت کے لحاظ سے بھی کسی قسم کی مشابہت    نہ ہو ۔ 

   چنانچہ سنن  ابنِ ماجہ میں ہے :” حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الصُّنَابِحِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ أَوْ قَالَ: يَطْلُعُ مَعَهَا قَرْنَا الشَّيْطَانِ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ فَارَقَهَا، فَإِذَا كَانَتْ فِي وَسَطِ السَّمَاءِ قَارَنَهَا، فَإِذَا دَلَكَتْ أَوْ قَالَ: زَالَتْ فَارَقَهَا، فَإِذَا دَنَتْ لِلْغُرُوبِ قَارَنَهَا، فَإِذَا غَرَبَتْ فَارَقَهَا، فَلَا تُصَلُّوا هَذِهِ السَّاعَاتِ الثَّلَاثَ۔“  یعنی :ابوعبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، یا فرمایا کہ سورج کے ساتھ شیطان کی دو سینگیں نکلتی ہیں، جب سورج بلند ہو جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہو جاتا ہے، پھر جب سورج آسمان کے بیچ میں آتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب سورج ڈھل جاتا ہے تو شیطان اس سے الگ ہو جاتا ہے، پھر جب ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب ڈوب جاتا ہے تو وہ اس سے جدا ہو جاتا ہے، لہٰذا تم ان تین اوقات میں نماز نہ پڑھو۔“(سنن ابن ماجه،كتاب إقامة الصلاة والسنة،حدیث:1253،ج01،ص397،الناشردار المعرفۃ ،بیروت )

   حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب   "حجۃ اللہ البالغۃ " میں تحریر فرماتے ہیں :” ثم الصلاۃ خیر ، فمن استطاع ان یستکثر منھا فلیفعل ، غیر انہ نھی عن الاوقات  ، لانھا اوقات عبدۃ المجوس ، وھم قوم حرفواالدین جعلوا یعبدون الشمس من دون اللہ ، واستحوذ علیھم الشیطان ، وھذا معنی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : فانھا تطلع بین قرنی الشیطان    ) وحینئذ یسجد لھا الکفار ، فوجب ان یمیز ملۃ   الاسلام وملۃ الکفر فی اعظم الطاعات من جھۃ الوقت ایضا ۔“   ترجمہ:پھر نماز خیر و بھلائی ہے ، حسبِ استطاعت اس کی جتنی کثرت کرسکتے ہیں کریں ،مگرتین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیاہے ، اس لئے کہ یہ مجوسیوں کی عبادت کے اوقات ہیں ،اہلِ مجوس ایسی بدترین قوم ہے، جس نے اپنے دین کو بدل ڈالا اور اللہ رب العزت کی بندگی کے بجائے سورج کی عبادت شروع کردی ، اور شیطان ان پر غالب آگیا ،  سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے  فرمان (کہ سورج شیطان کے سینگوں کے بیچ میں طلوع ہوتا ہے) کا یہی معنی ہے، اور اس وقت کفار سورج کے  سامنے سجدے میں گرجاتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ سب سے عظیم عبادت نماز میں وقت کے لحاظ سے بھی  ملتِ اسلام اور ملتِ کفر کے درمیان امتیازو فرق رکھا جائے ۔(حجۃ اللہ البالغۃ ، حصہ 02، صفحہ 33، مطبوعہ: دار الجیل ، بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم