ظہر کی نماز مثل ثانی میں پڑھنا

ظہر کی نماز مثل ثانی میں ادا کرنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3630

تاریخ اجراء:11 رمضان المبارک 1446 ھ/12 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا تعلق ہند سے ہے، ابھی میں قطر میں ہوں، میں حنفی ہوں اور اسی کے مطابق ہی عمل کرتا ہوں۔ پوچھنا یہ ہے کہ اگر میں ظہر  کی نماز شافعی عصر کے وقت میں(یعنی مثل اول ہوجانے کے بعدمثل ثانی سے پہلے پہلے) پڑھوں تو کیا میری نماز ہو جائے گی کیونکہ بسا اوقات  میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی کام کی وجہ سے  جلدی ظہر نہیں پڑھ  پاتا اور شافعی عصر  کا وقت ہو جاتا ہے  جبکہ  حنفیوں کے نزدیک  ابھی ظہر ہی کا وقت ہوتا ہے توکیا میری اس وقت ظہر کی نماز ہو جاتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگرحنفیوں کے مطابق عصرکاوقت شروع نہیں ہوا اگرچہ شافعیوں کے نزدیک شروع ہوچکاہوتواس وقت میں آپ کی ظہرکی نمازاداہوجاتی ہے کیونکہ جب آپ حنفی ہیں  اور حنفی مذہب کے مطابق ابھی ظہر کا وقت ختم نہیں ہوا  ہوتا، بلکہ ظہر کا وقت ہی    ابھی باقی ہوتا ہے، تو  آپ کی ظہر کی  نمازظہرکے وقت میں ہی ہوگی، البتہ!اختلاف سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ  ظہر کی  نماز  مثل اول یعنی شافعی عصر کے وقت سے پہلے ہی پڑھ لیا کریں۔

   مختصر القدوری میں ہے ”و أول وقت الظهر إذا زالت الشمس و آخر وقتها عند أبي حنيفة إذا صار ظل كل شيء مثليه سوي فيء الزوال“ ترجمہ: ظہر کا اول وقت زوالِ شمس کے بعد شروع ہوتا ہے اور آخر وقت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس وقت تک رہتا ہے جب تک ہر شے کا سایہ، اس کے سایہ اصلی کے سوا دو مثل نہ ہو جائے۔ (مختصر القدوری، ص 23، دار الكتب العلمية)

   غنیۃ المتملی  میں ہے ”قال المشايخ ينبغي ان لا يصلى العصر حتى يبلغ المثلين و لا يؤخر الظهر الى ان يبلغ المثل ليخرج من الخلاف فيهما“ ترجمہ: علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھی جائے جب تک کہ سایہ دو گنا نہ ہو جائے، اور ظہر کی نماز کو مثل اول تک مؤخر نہ کیا جائے  تاکہ اس میں اختلاف سے بچا جا سکے۔(غنیۃ المتملی، صفحہ 116، مطبوعہ  ترکی)

   فتاوی رضویہ میں ہے  حضرت سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک جب تک سایہ ظل اصلی کے علاوہ دو مثل نہ ہوجائے وقتِ عصر نہیں آتا اور صاحبین کے نزدیک ایک ہی مثل کے بعد آجاتا ہے۔۔۔ قولِ امام ہی احوط واصح اور ازروئے دلیل ارجح ہے۔ عموماً متون مذہب قولِ امام پر جزم کیے ہیں اور عامہ اجلہ شارحین نے اُسے مرضی ومختار رکھا اور اکابرائمہ ترجیح وافتا بلکہ جمہور پیشوایانِ مذہب نے اسی کی تصحیح کی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 05، صفحہ 132، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے :” بہتر یہ ہے کہ ظہر مثل اوّل میں پڑھیں اور عصر مثل ثانی کے بعد۔“ (بہار شریعت، جلد 01، حصہ 3، صفحہ 452، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم