بیٹی کی ساس سے نکاح کرسکتے ہیں؟

بیٹی کی ساس سے نکاح کرنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا مرد کا اپنی بیٹی کی ساس سے نکاح کرنا شرعاً جائز ہے، جبکہ بیٹی کی ساس کا شوہر فوت ہو چکا ہو اور عدت بھی ختم ہو چکی ہو؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مرد کا اپنی بیٹی کی ساس سے نکاح کرنا شرعا جائز ہے جبکہ ممانعت کی کوئی اور وجہ نہ ہو، کیونکہ بیٹی کی ساس محرمات (حرام کی گئی عورتوں) میں شامل نہیں۔ جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:

"وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ"

 ترجمہ: اور ان عورتوں کے علاوہ(جوحرام ہیں) سب تمہیں حلال ہیں۔ (پارہ5، سورۃ النساء، آیت24)

موسوعۃ الفقہ الاسلامی میں ہے:

"ولا تحرم بنت زوج الأم ولا أمه ولا ‌بنت ‌زوج ‌البنت ولا أمه"

 ترجمہ: ماں کے شوہر کی بیٹی اورماں کے شوہر کی ماں اور بیٹی کےشوہر کی بیٹی اور بیٹی کے شوہر کی ماں حرام نہیں۔ (موسوعة الفقه الإسلامي، جلد24، صفحہ78، الناشر مصر)

فتاوی نوریہ میں مفتی نور اللہ نعیمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ زید اپنے لڑکے اور لڑکی کی ساس کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے یا نہیں، جبکہ کوئی وجہ حرمت نہ ہو؟ آپ علیہ الرحمۃ نے جوابا ارشاد فرمایا: "بلا شک وشبہ وریب نکاح کرسکتا ہے کہ اولاد کی ساس محرماتِ شرعیہ سے یقینا خارج ہے اور قرآن کریم میں ہے:

"فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ"

اور قرآن مبین میں ہے:

"وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ"

                                             (فتاوی نوریہ، جلد02، صفحہ437، فقیہ اعظم پبلی کیشنز، اوکاڑہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : FSD-9458

تاریخ اجراء  27 محرم الحرام1447ھ23جولائی2024ء