بیوی اور اُس کی ماں شریک بہن سے نکاح کرنا کیسا؟

 

بیوی اور اُس کی ماں شریک بہن سے نکاح کرنا کیسا؟

دارالافتاء   اھلسنت ( دعوت اسلامی )

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ کی بیٹی کا نام  خاتون ہے جو کہ ہندہ کے پہلے شوہر سے ہے۔ پہلے شوہر کے انتقال کے بعد ہندہ نے دوسرا نکاح کیا ، دوسرے شوہر سے ہندہ کی بیٹی بیگم پیدا ہوئی۔اب زید کا نکاح ہندہ کی بیٹی خاتون سے ہوا ہے۔

معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید ہندہ کی دوسری بیٹی بیگم کو بھی اپنے نکاح میں لاسکتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت  میں زید کا اپنی بیوی خاتون کی ماں شریک بہن بیگم سے نکاح حرام قطعی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیوی کے نکاح یا عدت میں ہوتے ہوئے سالی یعنی بیوی  کی بہن سے نکاح کرنا ، ناجائز و حرام ہے۔ اب خواہ بیوی کی حقیقی بہن ہو یا   باپ شریک ہو یا ماں شریک ہو یا پھر رضاعی بہن ہو، بہر صورت بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے یہ نکاح سخت ناجائز و حرام ہے۔   

دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے  جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ

ترجمہ کنزالایمان:”اور دو بہنیں اکٹھی کرنا( حرام ہے)۔“(القرآن الکریم: پارہ 05، سورۃ النساء، آیت 23)

یہاں حرمت میں بیوی کی  ماں شریک،باپ شریک بہنیں بھی شامل ہیں۔ جیساکہ اس آیت کی تفسیر میں حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی:1391ھ)لکھتے ہیں:”اختین سے مراد ہر قسم کی بہنیں ہیں سگی ہوں یا ماں یا باپ شریکی یا دودھ کی، یعنی اے مسلمانو!تم پریہ بھی حرام ہے کہ کسی بھی قسم کی دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرو۔“(تفسیرِ نعیمی،ج04،ص577، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”عالم حیاتِ زوجہ میں حقیقی سالی یا رشتہ کی سالی سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟“آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”تاحیاتِ زوجہ جب تک اسے طلاق ہوکر عدت نہ گزرجائے اس کی بہن سے جو اس کے باپ کے نطفے یا ماں کے پیٹ سے یا دودھ شریک ہے نکاح حرام ہے۔

قال اللہ تعالیٰ"وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ

(منع ہے کہ تم دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرو)" “(فتاوٰی رضویہ،ج 11، ص 315-314، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوٰی رضویہ میں ایک دوسرے مقام پر ہے:”بموجودی زوجہ سالی سے نکاح حرام ہے۔“  (فتاوٰی رضویہ،ج 11، ص 317، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فقیہِ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک مسئلے کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”قرآن مجید میں آیتِ محرمات کی آخری آیت ہے

(وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ)

یعنی ایک وقت میں دوبہنوں کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے،سخت درسخت گناہ ہےاور اخت کا لفظ عینی،علاتی،اخیافی تینوں قسم کی بہنوں کو شامل ہے۔“(فتاوٰی فیض الرسول،ج01،ص595، شبیر برادرز، لاہور)

فتاوٰی خلیلیہ میں ہے:”جب ایک بہن نکاح میں ہو تو دوسری بہن سے نکاح حرام ہے اور اس کی حرمت ایسی نہیں کہ کسی امام نے اپنے اجتہاد سے نکالی ہو جس میں دوسرے امام کو خلاف کی گنجائش ہو بلکہ اس کی حرمت قرآن عظیم نے خاص اپنی نص واضح صریح سے ارشاد فرمائی ہے کہ

" وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ "

اور تم پر حرام کی گئی یہ بات کہ دو بہنوں کو نکاح میں اکھٹی کرو۔ تو جس طرح آدمی پر ماں، بہن، بیٹی حرام ہیں اسی طرح دو بہنوں کو جمع کرنا اس پر حرام ہے ۔“(فتاوٰی خلیلیہ،ج 01، ص 544، ضیاءالقرا ن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13756

تاریخ اجراء:25رمضان المبارک 1446 ھ/26مارچ 2025ء