
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اگر عیسائی عورت مسلمان ہو جائے، لیکن اس کا عیسائی شوہرمسلمان نہ ہو تو اس کا نکاح جو عیسائی لڑکے سے ہوا تھا وہ ٹوٹ جائے گا یا باقی رہے گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اِس کے بارے میں حکمِ شرع یہ ہے کہ اگرعیسائی عورت کسی عیسائی مرد کے نکاح میں ہو اور عورت مسلمان ہوجائے لیکن اس کا شوہر مسلمان نہ ہو اور وہاں قاضیِ اسلام موجود ہو تو قاضی اس کے عیسائی شوہرپر اسلام پیش کرے گا، اگر وہ اسلام لے آئے تو بہتر ورنہ انکار کرے یا خاموش رہے تو اِن دونوں کے درمیان تفریق (علیحدگی) کردی جائے گی اور یہ تفریق طلاق شمار ہوگی، اور جس جگہ قاضی اسلام نہ ہو، وہاں اگر کوئی عیسائی عورت اسلام لے آئے لیکن اس کاعیسائی شوہراسلام نہ لائے توعورت قبول اسلام کے وقت سے تین حیض گزرنے تک انتظار کرے، اگراس دوران اس کاشوہر مسلمان ہو جاتا ہے تووہ اس کے نکاح میں بدستوررہے گی لیکن جب تک اسلام نہ لے آئے اس وقت تک ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوسکتے، اور اگر وہ مسلمان نہیں ہوتا اور تین حیض مکمل ہوجاتے ہیں تواس کانکاح ختم ہوجائے گا اور وہ عورت کسی مسلمان سے نکاح کرنے کی مجازہوگی۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَهُنَّ﴾
ترجمہ: نہ یہ ان (کافروں) کیلئے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان کیلئے حلال ہیں۔ (پ 28، سورۃ ا لممتحنۃ، آیت 10)
درمختار میں ہے
"(و إذا) (أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي عرض الإسلام على الآخر، فإن أسلم) فبها (وإلا) بأن أبى أو سكت (فرق بينهما)...... (و التفريق) بينهما (طلاق) ينقص العدد (لو أبى لا لو أبت)"
ترجمہ: اور جب مجوسی میاں بیوی میں سے کوئی ایک، یا کسی کتابی (اہل کتاب) کی عورت نے اسلام قبول کر لیا، تو دوسرے فریق پر اسلام پیش کیا جائے گا، پس اگر وہ بھی اسلام لے آئے تو بہتر، اور اگر انکار کرے یا خاموش رہے، تو ان دونوں کے درمیان جدائی کر دی جائے گی۔۔۔ اور (یہ) جدائی طلاق شمار ہوگی جو عدد (طلاق کی گنتی) کو کم کردے گی، اگر شوہر نے انکار کیا ہو، نہ کہ اگر عورت نے انکار کیا ہو۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 03، کتاب النکاح، باب نکاح الکافر، صفحہ 188- 189، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے
"و إذا أسلم أحد الزوجين في دار الحرب و لم يكونا من أهل الكتاب أو كانا و المرأة هي التي أسلمت فإنه يتوقف انقطاع النكاح بينهما على مضي ثلاث حيض سواء دخل بها أو لم يدخل بها كذا في الكافي فإن أسلم الآخر قبل ذلك فالنكاح باق و لو كانا مستأمنين فالبينونة إما بعرض الإسلام على الآخر أو بانقضاء ثلاث حيض كذا في العتابية."
ترجمہ: اور جب میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کرے دار الحرب میں اور وہ دونوں کتابی نہ ہوں یا دونوں کتابی ہوں اور عورت ہی اسلام لائے توان کا نکاح ٹوٹنا تین حیض گزرنے پرموقوف رہے گا، چاہے عورت سے اس کے شوہر نے دخول کیا تھا یا نہیں کیا تھا، اسی طرح کافی میں ہے، پھر اگر تین حیض پورے ہونے سے پہلے دوسرا اسلام لے آتا ہے تونکاح باقی ہے اور اگر وہ دونوں مستامن ہوں توجدائی یا تو دوسرے پر اسلام پیش کرنے سے ہوگی یا تین حیض گزرنے سے اسی طرح عتابیہ میں ہے۔(فتاوی عالمگیری، الباب العاشر فی نکاح الکفار، ج 01، ص 338، دار الفکر، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے "زوج و زوجہ دونوں کافر غیر کتابی تھے، ان میں سے ایک مسلمان ہوا تو قاضی دوسرے پر اسلام پیش کرے اگر مسلمان ہوگیا فبہا اور انکار یا سکوت کیا تو تفریق کر دے، سکوت کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ تین بار پیش کرے، یوہیں اگر کتابی کی عورت مسلمان ہوگئی تو مرد پر اسلام پیش کیا جائے، اسلام قبول نہ کیا تو تفریق کر دی جائے۔" (بہارِ شریعت، جلد 02، حصہ 07، صفحہ 89- 90، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
صدر الشرِيعَہ، بَدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمدامجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: "عورت اگر مشر کہ ہے تو مسلمان کی زوجیت میں نہیں رہ سکتی۔ اللہ عز و جل فرماتا ہے:
﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ﴾
ترجمہ كنز الایمان: نہ یہ ا نہیں حلال نہ وہ انہیں حلال (پ ۲۸، ممتحنہ، 10) شوہر کے مسلمان ہونے کے بعد قاضی عورت پر اسلام پیش کرے گا اگر اسلام سے انکار کرے نکاح جاتا رہے گا۔ اور جہاں قاضی نہوں جیسے آجکل ہندوستان، یہاں عورت کو تین حیض آنے پر نکاح ٹوٹ جائیگا ۔ ۔۔۔ یہ حکم نکاح ٹوٹنے کا ہے۔۔۔۔ رہا عورت سے جماع کرنا تو مرد کے اسلام لاتے ہی حرام ہوگیا۔"(فتاوی امجدیہ، ج 04، ص416 ، 417 مطبوعہ: مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3820
تاریخ اجراء: 15 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 13 مئی 2025 ء