
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ مسلم یا غیر مسلم ممالک میں عیسائی عورتوں سے شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
موجودہ دور میں کتابی یعنی عیسائی اور یہودی عورتیں تمام کی تمام حربیہ ہیں اور حربیہ کتابی عورت سے نکاح کرنا ناجائز و گناہ ہے اور یہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ خدا اور مذہب کو ماننے والی ہوں، ورنہ اگر خداہی کی منکر یعنی دہریہ ہوں جیسا کہ موجودہ زمانے کی خصوصا عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد خدا اور مذہب کی منکر ہوچکی ہے اور خالص دہریہ ہے تو ایسی دہریہ عورت کے ساتھ نکاح بالکل ہی باطل و حرام ہے۔ اس تفصیل کی روشنی میں موجودہ زمانے کی کتابی (یہودی، عیسائی) عورتوں کے ساتھ نکاح کی صورت یا تو باطل ہے یعنی نکاح بالکل ہی نہ ہوگایا یہ نکاح کم از کم ناجائز و گناہ ہوگا۔ لہٰذا فی زمانہ کسی بھی کتابی عورت سے نکاح کرنا، جائز نہیں۔ دین اسلام میں جو کتابی عورت سے بغیر گناہ کے نکاح کی اجازت ہے وہ اس صورت میں ہے جبکہ وہ خدا اور مذہب کو ماننے والی ہو اور ذمیہ ہو یعنی اسلامی سلطنت میں جزیہ دے کر رہتی ہو اور اس تیسری صورت میں بھی یہ نکاح پسندیدہ نہیں، اگرچہ گناہ بھی نہیں۔
فتح القدیر میں ہے:
(و يجوز تزويج الكتابيات) و الأولى أن لا يفعل و لا يأكل ذبيحتهم إلا للضرورة۔ و تكره الكتابية الحربية إجماعا لانفتاح باب الفتنة من إمكان التعلق المستدعي للمقام معها في دار الحرب، و تعريض الولد على التخلق بأخلاق أهل الكفر
کتابیہ عورتوں سے نکاح جائز ہے (لیکن) بہتر یہ ہے کہ بلاضرورت ان سے نکاح نہ کرے اور نہ ان کا ذبیحہ کھائے۔ حربیہ کتابیہ (سے نکاح) بالاجماع مکروہ ہے کیونکہ اس سے فتنے کا دروازہ کھلنے کا اندیشہ ہے وہ یہ کہ بیوی سے تعلق مسلمان مرد کو اس کے ساتھ دارالحرب میں رہنے پر آمادہ کرسکتا ہے اور اس میں بچے کو کفار کی عادات کا عادی بنانے پر پیش کرنا ہے۔ (فتح القدیر، ج 03، ص 228، 229، دار الفکر بیروت)
بحر الرائق میں ہے:
و في المحيط يكره تزوج الكتابية الحربية؛ لأن الإنسان لا يأمن أن يكون بينهما ولد فينشأ على طبائع أهل الحرب و يتخلق بأخلاقهم فلا يستطيع المسلم قلعه عن تلك العادة
حربیہ کتابیہ عورت سے نکاح مکروہ ہے کیونکہ انسان کو یہ اندیشہ رہے گاکہ اس سے بچہ پیدا ہو تو حربیوں والی نیچر کے مطابق پرورش پائے، ان کی عادات سیکھ لے اور اس کے بعدمسلمان اس بچے سےان کی عادات چھڑوا نہ سکے۔ (بحر الرائق، ج 03، ص 111، دار الکتاب الاسلامی)
مذكوره عبارت فتح کے تحت شامی میں ہے:
فقوله: و الأولى أن لا يفعل يفيد كراهة التنزيه في غير الحربية، و ما بعده يفيد كراهة التحريم في الحربية
یعنی: امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کا قول کہ ”بہتر ہے نہ کرے“ یہ فائدہ دیتا ہے کہ کتابیہ غیر حربیہ سے نکاح مکروہ تنزیہی ہے جبکہ اس کا مابعد قول حربیہ کے بارے میں مکروہ تحریمی ہونے کا فائدہ دیتا ہے۔ (رد المحتار، ج 03، ص 45، دار الفکر)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”کتابیہ سے نکاح کا جواز، عدمِ ممانعت اور عدمِ گناہ صرف کتابیہ ذمیہ میں ہے جو مطیع الاسلام ہوکر دار الاسلام میں مسلمانوں کے زیرِ حکومت رہتی ہو، وہ بھی خالی از کراہت نہیں بلکہ بے ضرورت مکروہ ہے۔ مگر کتابیہ حربیہ سے نکاح مذکور جائز نہیں بلکہ عند التحقیق ممنوع و گناہ ہے علمائے کرام وجہ ممانعت اندیشہ فتنہ قرار دیتے ہیں کہ ممکن کہ اس سے ایسا تعلق قلب پیدا ہو جس کے باعث آدمی دارالحرب میں وطن کرلے نیز بچے پر اندیشہ ہے کہ کفار کی عادتیں سیکھے۔“ ( فتاوٰی رضویہ ج 11، ص 400، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
لہذادوبارہ سمجھ لیں کہ اولاً تو فی زمانہ اہل کتاب کہلانے والوں کی بہت بڑی تعداد اپنے اصل مذہب پر باقی نہیں رہی،بلکہ دہریہ ہوچکی ہے، ایسی عورتیں نہ کتابیہ ہیں،اور نہ ہی ان سے نکاح جائز بلکہ باطل وبے اصل ہے یعنی ہوہی نہیں سکتا۔
اور جو واقعی کتابیہ ہیں، ان سے بھی فی زمانہ نکاح مطلقا مکروہ تحریمی ناجائز و گناہ ہے خواہ مسلم ممالک میں ہو یا غیر مسلم ممالک میں، کیونکہ کتابیہ عورت سے نکاح کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ ذمیہ ہو یعنی دار الاسلام میں مطیع الاسلام ہوکر رہتی اور جزیہ دیتی ہو، (لیکن کراہت سے خالی یہ بھی نہیں) جبکہ موجودہ دور میں تمام غیر مسلم حربی ہیں، اور حربیہ کتابیہ سے نکاح مطلقا ناجائز و گناہ ہے۔
نکاح صرف وقت گزاری کا نام نہیں بلکہ یہ زندگی بھر کا ایک مضبوط بندھن ہے، جس سے شریعت مطہرہ کی کئی مصلحتیں او رحکمتیں وابستہ ہیں جبکہ کتابیہ عورت سے نکاح میں کئی خرابیوں کا اندیشہ ہے، لہٰذا انسان کے دین و ایمان کی حفاظت اور آخرت کی بچت اسی میں ہے کہ ایسے نکاح سے دور رہے۔
یہودی عیسائی کتابیہ عورت سے نکاح کے نقصانات:
(1) نکاح، بیوی سے محبت ہونے کا بہت قوی ذریعہ ہے، لہذا مذکورہ نکاح مردکے ایمان کے لئے خطرہ بن سکتا ہے کہ عین ممکن ہے وہ کتابیہ عورت کی محبت میں گرفتار ہوکر دین اسلام سے منحرف ہوجائے اوریہودیت یا عیسائیت قبول کرلے،جیسا کہ تاریخ میں اس طرح کے کئی واقعات موجود ہیں۔
(2) ایسی بیوی سے پیدا ہونے والی اولاد کے دین کے حوالے سے یہ اندیشہ رہے گاکہ کہیں وہ اسلام سے منحرف نہ ہوجائے،کفریہ عقائداور عادات واطوار کونہ اپنالے، کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے،نیزباپ فکر معاش کی وجہ سے ایک معتد بہ وقت گھر میں نہیں دے پاتا، اور بچہ اکثر وقت ماں کے ساتھ زیاد ہ گزارتا ہے ، جس کے سبب بچہ ماں سے دین، عادات و اطوار سیکھتا ہے، یوں بچے کے ماں کے دین کے مطابق پروان چڑھنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
ان ہی وجوہات کے پیش نظر کتابیہ سے نکاح کو مطلقا ناپسندیدہ قرار دیا گیا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بعض حضرات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے کتابیہ عورتوں سے نکاح کرلیا ہے تو آپ نے جلال کا اظہار فرمایا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے حوالے سے مروی ہے کہ آپ کتابیہ عورت سے نکاح کو مکروہ جانتے تھے۔
کتابیہ عورت سے نکاح کے متعلق ارشاد خداوندی ہے:
وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْۤ اَخْدَانٍ
ترجمہ کنز العرفان: اورجن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان کی پاکدامن عورتیں (تمہارے لئے حلال کردی گئیں) جبکہ تم ان سے نکاح کرتے ہوئے انہیں ان کے مہر دو، نہ زنا کرتے ہوئے اور نہ انہیں پوشیدہ آشنا بناتے ہوئے۔ (سورہ مائدہ، آیت: 05)
مذکورہ آیت کے تحت تفسیر مظہری میں ہے:
لكنه يكره نكاح الكتابية مطلقا اجماعا لاستلزام النكاح مصاحبة الكافرة و موالاتها و تعريض الولد على التخلق بأخلاق الكفار لاجل مصاحبة الام و موانستها قال ابن همام نكح حذيفة و طلحة و كعب بن مالك كتابيات فغضب عمر رضى الله عنه و هذه القصة تدل على جواز النكاح و على كراهته
لیکن کتابیہ سے نکاح بالاجماع مطلقا مکروہ ہے کیونکہ اس نکاح کی وجہ سے کافرہ عورت کے ساتھ رہنا ہوگا اور اس سے محبت پیدا ہوگی، نیز اس کے ساتھ رہنے اور اس کی محبت کی وجہ سے آنے والی اولاد کو کفار کے اخلاق و عادات کے مطابق ڈھالنا لازم آئے گا، ابن ہمام علیہ الرحمہ نے فرمایا حضرت حذیفہ، طلحہ اور کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہم نے کتابیہ عورتوں سے نکاح کیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے غصے کا اظہار فرمایا، یہ قصہ نکاح کے فی نفسہ جائز ہونے لیکن ساتھ اس کے مکروہ ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے۔ (تفسير مظهری ملتقطاً، ج 03، ص 41، مطبوعہ پاکستان)
تفسیر نعیمی میں ہے: ” وہ مسلمان جو اپنے ایمان اور احتیاطوں پر قابو نہ رکھتا ہو وہ ہرگزہرگز کتابیہ سے نکاح نہ کرے، اس نکاح میں چار باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اولا اپنا ایمان بچاسکے اس کی صحبت سے خود عیسائی نہ بن جاوے۔ دوسرے یہ کہ اپنے بچوں گھر والوں کو بھی کفر سے بچاسکے ایمان پر قائم رکھ سکے۔۔۔الخ“ (تفسیر نعیمی، ج 05، ص 219، نعیمی کتب خانہ گجرات)
تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”اہلِ کتاب سے نکاح کے چند اہم مسائل: (1) اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح حلال ہے لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ واقعی اہلِ کتاب ہوں ،دہریہ نہ ہوں جیسے آج کل بہت سے ایسے بھی ہیں۔ (2)یہ اجازت بھی دارُالاسلام میں رہنے والی ذِمِّیَہ اہلِ کتاب عورت کے ساتھ ہے۔ موجودہ زمانے میں جو اہلِ کتاب ہیں یہ حربی ہیں اور حربیہ اہلِ کتاب کے ساتھ نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔“ (صراط الجنان، ج 02، ص 433، مکتبۃ المدینۃ کراچی)
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت نافع، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے حوالے سے روایت کرتے ہیں:
أنه كان يكره نكاح نساء أهل الكتاب
آپ کتابیہ عورت سےنکاح کو مکروہ جانتے تھے۔(المصنف لابن ابی شیبہ، ج 09، ص 86، رقم: 16419، دار القبلة)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0404
تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر 1446ھ /19 اگست 2024ء