
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3586
تاریخ اجراء:22شعبان المعظم 1446ھ/21فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا خالہ کے بیٹے کی بیٹی سے نکاح ہو سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں ! اپنی خالہ کے بیٹے کی بیٹی سے نکاح جائز ہے بشرطیکہ کوئی وجہِ حرمت یعنی رضاعت یا مصاہرت وغیرہ نہ ہو کیونکہ جن عورتوں سے نکاح حرام ہے قرآن پاک میں ان کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے اور یہ ان عورتوں میں سے نہیں ۔
نوٹ:یہ یادرہے کہ حرمت کے اصولوں میں یہ قاعدہ مذکورہ ہے کہ اپنی اصل بعیدکی فرع بعیدحلال ہوتی ہے جبکہ وہ اپنی اصل قریب کی فرع نہ ہو ،اورخالہ کے بیٹے کی بیٹی،اپنی اصل بعیدیعنی ناناکی فرع بعیدہے پس اگریہ اپنی اصل قریب کی فرع نہ ہوتواس سے نکاح حلال ہے ۔اصل قریب کی فرع ہونے کی یہاں صورت یہ ہوسکتی ہے کہ خالہ کے بیٹے نے اس کی بہن سے نکاح کیاہے،تواس صورت میں وہ اپنی اصل قریب یعنی والدکی فرع بھی ہے تواس سے نکاح حلال نہیں ۔
جن عورتوں سے نکاح نہیں ہو سکتا ان کی تفصیل بیان کرنے کے بعد قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے :(وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ) ترجمہ کنز الایمان: اور اُن کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں۔(پارہ 05، سورۃ النساء، آیت:24)
خالہ کے بیٹے کی بیٹی حرام کردہ رشتوں کے علاوہ ہے چنانچہ الدر المنتقی فی شرح الملتقی مع مجمع الانھرمیں اورالبنایۃ شرح ہدایہ میں ہے ” : حرم اللہ العمۃ و الخالۃولم یحرم بناتھماوکذا اولادھم وان سفلوایجوز التناکح فیما بینھم“ترجمہ:اللہ تعالی نے پھوپھی اور خالہ کو حرام قراردیا اور ان دونوں کی بیٹیوں، اورایسے ہی ان کی اولادوں کو حرام قرار نہیں دیا ،اگرچہ ان کی اولاد میں سے نیچے تک کوئی ہو ،ان کے ساتھ باہم نکاح کرنا جائز ہے ۔( البنایۃ شرح ہدایہ،المحرمات من جھۃ السبب،جلد5،صفحہ 22،مطبوعہ بیروت)
امام اہل سنت، اعلیٰ حضرت،ا لشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ؛زید وعمر و حقیقی چچازاد بھائی ہیں اب عمرو کی دختر کے ساتھ نکاح کرناچاہتا ہے جائزہے یا نہیں؟توآپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:" اپنے حقیقی چچاکی بیٹی یا چچا زاد بھائی کی بیٹی یاغیر حقیقی دادا کی اگرچہ وہ حقیقی داداکا حقیقی بھائی ہو، اور رشتے کی بہن جو ماں میں ایک نہ باپ میں شریک نہ باہم علاقہ رضاعت جیسے ماموں خالہ پھوپھی کی بیٹیاں یہ سب عورتیں شرعاً حلال ہیں جبکہ کوئی مانع نکاح مثل رضاعت ومصاہرت قائم نہ ہو ۔قال ﷲ تعالٰی"وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم"اللہ تعالٰی نے فرمایا: محرمات کے علاوہ عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔ " (فتاوٰی رضویہ، ج11، ص413، رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :" اوراصلِ بعید کی فرعِ قریب جیسے اپنے دادا، پردادا، نانا ، دادی، پردادی، نانی، پرنانی کی بیٹیاں یہ سب حرام ہیں اور اصلِ بعید کی فرعِ بعید جیسے اُنہی اشخاصِ مذکورہ آخر (یعنی آخر میں ذکر کیے گئے افراد جیسے اپنے دادا ، پردادا وغیرہ) کی پوتیاں نواسیاں ، جو اپنی اصل قریب کی فرع نہ ہوں ، حلال ہیں ۔"(فتاوی رضویہ، جلد11، صفحہ516۔517، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم