
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں شہدائے کربلا کے سوگ کی وجہ سے محرم الحرام میں اور صفر المظفر کو منحوس و بے برکتی والا مہینا سمجھتے ہوئے صفر المظفر میں نکاح و شادی کی تقاریب نہ کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
محرم الحرام اور صفر المظفر کے مہینے میں شادی بیاہ کی تقاریب کرنا باقی مہینوں کی طرح بغیر کسی شک وشبہ کے جائز ہے، شرعا کوئی ممانعت نہیں، اب اگر کوئی شہدائے کربلا کے سوگ کی وجہ سے محرم الحرام میں شادی بیاہ کی تقاریب نہیں کرتا، تو یہ ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، کیونکہ شریعت مطہرہ میں سوگ صرف بیوی کے لیے اپنے شوہر کی وفات پر چار مہینا دس دن ہے، اس کے علاوہ کسی کے لیے بھی کسی کے انتقال پر تین دن سے زائد سوگ منانا ناجائز و حرام ہے۔ اسی طرح اگر کوئی صفر المظفر کو منحوس و بے برکتی والا مہینا سمجھتے ہوئے اس مہینے میں شادی بیاہ نہ کرے تو یہ بھی نا جائز و گناہ ہے کہ یہ بد شگونی ہے اور اسلام میں بد شگونی جائز نہیں، اور اس فعل کو جہالت اور یہودیوں کا طریقہ کہا گیا ہے۔ نیز اس طرح کا اعتقاد رکھنا محض باطل و مردود ہے، جس کی کوئی اصل نہیں، بلکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے، تو سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو منحوس جاننے سے منع فرمادیا، لہذا کسی بھی دن کو کسی بھی مہینے کو کسی بھی شخص کو کبھی منحوس نہ سمجھا جائے، بلکہ مسلمان کواللہ تبارک و تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر نیک و جائز کام کرنا چاہیے۔
امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا یحل لامراۃ تؤمن باللہ و الیوم الآخر ان تحد علی میت فوق ثلث الا علی زوج فانھا تحد علیہ اربعۃ اشھر و عشرا
ترجمہ: جو عورت اللہ عزوجل اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، اسے یہ حلال نہیں کہ کسی میت پر تین دنوں سے زیادہ سوگ کرے، مگر شوہر پر کہ چار مہینے دس دن سوگ کرے۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، صفحہ 238، حدیث: 1280، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
سیدی سرکار اعلی حضرت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا: "1: بعض سنت جماعت عشرہ دس محرم الحرام کو نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں نہ جھاڑو دیتے ہیں۔ 2: ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔ 3: ماہِ محرم میں بیاہ شادی نہیں کرتے، آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟" تو جواباً آپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا: "تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام۔" (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 488، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، مشکوۃ المصابیح وغیرہ میں ہے:
قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم لا عدوى و لاطیرۃ و لا هامة و لا صفر
ترجمہ: رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مرض کا اڑ کر دوسرے کو لگنا نہیں، نہ بد فالی ہے، اورنہ ہی الو منحوس ہے اور نہ ہی صفر کا مہینا منحوس ہے۔ (مشكوة المصابيح مع مرقاة المفاتيح، ج 8، ص 394، مطبوعہ کوئٹہ)
محقق علی الاطلاق حضرت علامہ مولانا شاہ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اس حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کچھ اصلیت نہیں ہے۔ (اشعۃ اللمعات اردو، ج 05، ص 757، مکتبہ فرید بک سٹال، اردو بازار، لاھور)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لیس منا من تطیر
ترجمہ: جس نے بدشگونی لی، وہ ہم میں سے نہیں (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں)۔ (المعجم الکببیر، ج 18، ص 162، بیروت)
سنن ابی داؤدمیں ہے: أن أهل الجاهلية يستشئمون بصفر، فقال النبي صلى اللہ عليه و سلم: لا صفر
ترجمہ: زمانۂ جاہلیت کے لوگ صفر کے مہینے سے بدشگونی لیتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: "لا صفر" یعنی صفر کوئی چیز نہیں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الطب، صفحہ 615، حدیث: 3914، دار الکتب العلمہ، بیروت)
العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
و سئل ما يكون السؤال عن النحس، و السعد، و عن الأيام، و الليالي التي تصلح لنحو السفر و الانتقال ما يكون جوابه؟ (أجاب) من يسأل عن النحس و ما بعده لا يجاب إلا بالإعراض عنه و تسفيه ما فعله و يبين له قبحه و أن ذلك من سنة اليهود لا من هدى المسلمين المتوكلين على خالقهم
ترجمہ: حضرت علامہ آفندی علیہ الرحمۃ سے منحوس و مبارک اور دنوں اور راتوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ سفر و دیگر کاموں کے لیے منحوس یا بابرکت ہوتے ہیں؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواب دیا کہ جو شخص کسی چیز کے منحوس ہونے کے بارے میں سوال کرے تو اسے جواب نہ دیا جائے، بلکہ اس سے اعراض کیا جائے اور اس کے فعل کوجہالت کہا جائے اور اس کی برائی کو بیان کیا جائے کیونکہ یہ (کسی چیز کو اپنے حق میں منحوس سمجھنا) یہودیوں کا طریقہ ہے مسلمانوں کا طریقہ نہیں جو اپنے خالق عزوجل پر توکل رکھتے ہیں۔ (العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ، جلد 2، صفحہ 333، دار المعرفہ، بیروت)
امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃالرحمٰن سےسوال ہوا کہ: ماہِ محرم الحرام و صفر المظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: "نکاح کسی مہینے میں منع نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ 265، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ”بہار شریعت“ میں فرماتے ہیں:
ماہِ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں، اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں، خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں
حدیث میں فرمایاکہ صفر کوئی چیز نہیں۔ یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے۔۔۔۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں، بلکہ حدیث کا یہ ارشاد لاصفر یعنی صفر کوئی چیز نہیں۔ ایسی تمام خرافات کو رد کرتا ہے۔ (بھارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 659، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یکم صفر سے ۱۳ صفر تک اور یکم ربیع الاول سے ۱۲ ربیع الاول تک شادی بیاہ کرنا بلاشبہ جائز ہے شرعا کوئی حرج نہیں۔ ان تاریخوں میں شادی بیاہ کرنے کو منع کرنا جہالت و نادانی ہے۔ (فتاوی فیض الرسول، ج 1، ص 562، مطبوعہ شبیر برادرز)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: MUI-006
تاریخ اجراء: 24 صفر المظفر 1445ھ / 11 ستمبر 2023ء