دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا ماں کی خالہ کے بیٹے سے نکاح ہو جاتا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! اگر ممانعت کی کوئی اور وجہ (مثلاً دودھ کا رشتہ وغیرہ) نہ پائی جائے تو ماں کی خالہ کے بیٹے سے نکاح ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ماں کے خالہ زاد بھائی کو ہمارے عرف میں ماموں کہا جاتا ہے لیکن یہ حقیقی ماموں نہیں،نہ ہی اس سے نکاح کرنے کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس نکاح میں حرج نہیں۔
جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کا بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ
ترجمہ: اور اُن کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں۔ (پارہ 5، سورۃ النساء، آیت 24)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ ایک بہن کا لڑکا ہے اور دوسری بہن کی دختر کی لڑکی ہے، یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ آپ علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”ہاں! جائز ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 11، صفحہ 506، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
مصدق: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
فتویٰ نمبر: Web-46
تاریخ اجراء: 22 جمادی الاولٰی 1442ھ / 07 جنوری2021ء