
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے علمائے کرام اس بارے میں کہ اگر نکاح میں مہر معین نہ کیا تو کیا نکاح درست ہو جائے گیا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! اگر نکاح کے وقت مہر معین نہ کیا جائے تو نکاح شرعاً درست ہو جاتا ہے لیکن ایسی صورت میں عورت کو بعد میں مہرِ مثل دیا جائے گا۔ عورت کے خاندان کی اُس جیسی عورت کا جو مہر ہو، وہ اُس کے لئے مہر مثل ہے ، مثلاً اس کی بہن ، پھوپھی، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
و إن تزوجها و لم يسم لها مهرا أو تزوجها على أن لا مهر لها فلها مهر مثلها إن دخل بها أو مات عنها
ترجمہ: اور اگر کسی عورت سے نکاح کیا لیکن اس کا مہر بیان نہیں کیا یا اس شرط پر نکاح کیا کہ اس کے لئے مہر نہیں ہو گا تو (ان دونوں صورتوں) میں اس کے لئے مہر مثل ہو گا اگر دخول کر لیا یا وہ مر گیا۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 304، دار الفکر، بیروت)
فتاوی خلیلیہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں مفتی خلیل خان برکاتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ”یہاں دو چیزیں ہیں۔ ایک نفس مہر، دوسرا تعین مہر۔ نکاح کے لئے مہر لازم ہے یعنی مہر کا ذکر نکاح میں ہو یا نہ ہو بلکہ مہر کی نفی شرط کردی ہو جب بھی مہر دینا لازم آئے گا اور نکاح درست ہوگا۔ اور تعین مہر نکاح کے لئے کچھ ضروری نہیں اگر تعین مہر نہ ہوگی تو مہر مثلی دینا لازم ہوگا۔ بہر صورت نکاح کے انعقاد میں کوئی شبہ نہیں۔“ (فتاوی خلیلیہ، جلد 2، صفحہ 104، ضیاء القرآن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے ”عورت کے خاندان کی اُس جیسی عورت کا جو مہر ہو، وہ اُس کے لئے مہر مثل ہے، مثلاً اس کی بہن، پھوپھی، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر۔“ (بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ 7، صفحہ 71، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4144
تاریخ اجراء: 24 صفر المظفر 1447ھ / 19 اگست 2025ء