
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ لڑکے کا اپنی والدہ کے سگے ماموں کی بیٹی سے نکاح کرناکیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
والدہ کے سگے ماموں کی بیٹی سے نکاح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ کوئی اور سببِ حرمت مثلاً مصاہرت یا رضاعت موجود نہ ہو، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں جن عورتوں سےنکاح حرام قرار دیا گیا ہے، اُن میں والدہ کے ماموں کی بیٹی شامل نہیں، نیز والدہ کے سگے ماموں کی بیٹی دراصل لڑکے کے پَرنانا کی پوتی بنتی ہےاور قاعدہ یہ ہے کہ اپنی اصلِ بعید (جیسے دادا، نانا، پَردادا، پَرنانا)کی فرعِ بعید (یعنی ان کی پوتیوں، نواسیوں ) سے نکاح کرنا، جائز ہے۔ لہٰذا والدہ کے سگے ماموں کی بیٹی سے نکاح کرنا بلا شبہ جائز ہے۔
جن عورتوں سے نکاح حرام ہے، انہیں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ ۔
ترجمہ کنز العرفان: اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرو۔(القرآن، پارہ 5، سورۃ النساء، آیت 24 )
اصلِ بعید کی وہ اولاد جو صلبی نہ ہو یعنی فرعِ بعید ہو، اُس سے نکاح حلال ہونے کے متعلق علامہ عبید اللہ بن مسعود حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات : 747 ھ) لکھتے ہیں:
”والأصل البعيد: الأجداد، والجدات، فتحرم بنات هؤلاء الصلبية: أي العمات والخالات ۔۔۔ لكن بنات هؤلاء إن لم تكن صلبية لا تحرم“
ترجمہ: اصلِ بعید یعنی دادا، دادیاں، اُن کی صلبی بیٹیاں یعنی پھوپھیاں اور خالائیں تو حرام ہیں، لیکن ان کی بیٹیاں اگر صلبی نہ ہوں، تو حرام نہیں۔(شرح الوقایۃ مع عمدۃ الرعایۃ، جلد 3، کتاب النکاح، باب المحرمات، صفحہ32، مطبوعہ بیروت)
اِسی قاعدہ کو بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 1340ھ /1921ء) لکھتے ہیں: ”جزئیت کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اپنی فرع اور اپنی اصل کتنی بعید ہو مطلقاً حرام ہے اور اپنی اصل قریب کی فرع اگرچہ بعیدہو حرام ہے اور اپنی اصل بعید کی فرع بعید حلال، اپنی فرع جیسے بیٹی پوتی نواسی کتنی ہی دور ہو اور اصل ماں دادی نانی کتنی ہی بلند ہو اور اصل قریب کی فرع یعنی اپنی ماں اور باپ کی اولاد یا اولادکی اولاد کتنی ہی بعید ہو اوراصل بعید کی فرع قریب جیسے اپنے دادا، پردادا، نانا، دادی، پردادی، نانی، پرنانی کی بیٹیاں یہ سب حرام ہیں اور اصل بعید کی فرع بعید جیسے انہی اشخاص مذکورہ آخر کی پوتیاں نواسیاں جو اپنی اصل قریب کی نوع نہ ہوں حلال ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ 516، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بعینہ صورتِ مسئولہ کے موافق مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1403ھ/1982ء) سے اپنی والدہ کے حقیقی ماموں کی بیٹی سے نکاح کے متعلق سوال ہوا، تو آپ نے جواباً لکھا: ”ہاں ہوسکتا ہے، کیونکہ محرماتِ خاصہ میں اس کا ذکر نہیں، تو (اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُم)سے حلال ہوگئی۔“(فتاوی نوریہ، جلد 2، صفحہ 445، مطبوعہ مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9450
تاریخ اجراء : 20صفر المظفر 1446 ھ /15 اگست 2025ء