
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
ذمی مرد کا نکاح مسلمان عورت سے ہوسکتا ہے نیز مسلمان مرد کا کتابیہ سے نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مسلمان عورت کا نکاح کسی قسم کے کافر سے نہیں ہو سکتا۔ اورمسلمان مردکےکتابیہ (یعنی عیسائیہ یا یہودیہ) عورت سے نکاح کرنے میں تفصیل ہے کہ اگرکتابیہ عورت ذمیہ ہے جومطیع الاسلام ہوکر دار الاسلام میں مسلمانوں کے زیرحکومت رہتی ہوتواس کے ساتھ بغیرضرورت کے مسلمان مرد کا نکاح کرنا مکروہ تنزیہی ہے اور اگر کتابیہ عورت حربیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح کرنا مکروہ تحریمی و ناجائز و گناہ ہے۔
نوٹ: واضح رہے کہ! یہ احکام اُس وقت ہیں کہ جب وہ عورت واقعی کتابیہ ہو اور اگر صرف نام کی کتابیہ (یہودیہ، نصرانیہ) ہو اور حقیقۃً نیچری اور دہریہ مذہب رکھتی ہو، جیسے آج کل کے بہت سے عیسائی کہلانے والوں کا حقیقت میں کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ دہریے ہوتے ہیں، تو ان سے بالکل نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔
اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:
﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَهُنَّ﴾
ترجمہ کنزالعرفان: نہ یہ ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں اورنہ وہ (کافر) ان کے لیے حلال ہیں۔ (پارہ 28، سورۃ الممتحنۃ، آیت 10)
ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ لکھتے ہیں:
"منها اسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: ﴿وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا﴾"
ترجمہ: نکاح کی شرائط میں سے ایک شرط مرد کا مسلمان ہونا ہے، جب عورت مسلمان ہو، لہذا مؤمنہ عورت کا کافر مرد سے نکاح کرنا، جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور (مسلمان عورتوں کو) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ (بدا ئع الصنائع، کتاب النکاح، ج 2، ص 271، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی علیہ فرماتے ہیں: ”مسلمان عورت کا نکاح مطلقاً کسی کافر سے نہیں ہوسکتا۔ کتابی ہو یا مشرک یا دہریہ، یہاں تک کہ اُن کی عورتیں جو مسلمان ہوں، اُنہیں واپس دینا حرام ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 11،ص 511، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتح القدیر میں ہے
”وتكره الكتابية الحربية إجماعا لانفتاح باب الفتنۃ“
ترجمہ: حربیہ کتابیہ سے نکاح، بالاجماع مکروہ ہے، کیونکہ اس سے فتنے کا دروازہ کھلنے کا اندیشہ ہے۔ (فتح القدیر، جلد 3، كتاب النكاح، صفحہ 228 ،229، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے" کتابیہ سے نکاح کا جواز عدم ممانعت وعدم گناہ صرف کتابیہ ذمیہ میں ہے جو مطیع الاسلام ہوکر دارالاسلام میں مسلمانوں کے زیر حکومت رہتی ہو وہ بھی خالی از کراہت نہیں، بلکہ بے ضرورت مکروہ ہے،فتح القدیر میں فرمایا:
”الاولی ان لا یفعل ولا یاکل ذبیحتھم الا للضرورۃ“
(بہتر یہ ہے کہ بلا ضرورت ان سے نکاح نہ کیا اور نہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے۔)مگرکتابیہ حربیہ سے نکاح یعنی مذکورہ جائز نہیں، بلکہ عند التحقیق ممنوع وگناہ ہے، علمائے کرام وجہِ ممانعت، اندیشہ فتنہ قرار دیتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اُس سے ایسا تعلقِ قلب پیدا ہو، جس کے باعث آدمی دار الحرب میں وطن کرلے نیز بچے پر اندیشہ ہے کہ کفار کی عادتیں سیکھے، نیز احتمال ہے کہ عورت بحالت حمل قید کی جائے تو بچہ غلام بنے۔" (فتاویٰ رضویہ، جلد 11، صفحہ 400، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی امجدیہ میں ہے "اِس زمانہ کے نصاریٰ اب اُس قسم کے نہیں ہیں، جو زمانہ سابق میں تھے، آج کل تو بالکل دہریہ ونیچریہ ہیں، لہذا ان کے وہ احکام نہیں، جو نصاریٰ کے تھے، کہ مسلمان کا نکاح نصرانیہ سے ہو جائے یا اُن کا ذبیحہ جائز ہو۔۔۔ بلکہ اب تو علماء تصریح فرماتے ہیں:
النصرانی لا ذبیحۃ لہ
(یعنی نصرانی کا ذبح کردہ جانور حلال نہیں۔) نصرانیہ جب کہ نصرانیہ ہو اور یہودیہ سے نکاح جائز ہے ،مگر ذمیہ ہوتو مکروہ تنزیہی اور حربیہ ہو تو مکروہ تحریمی قریب بحرام۔" (فتاوی امجدیہ ، جلد2، صفحہ69، مکتبہ رضویہ،کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر: WAT-3818
تاریخ اجراء: 12 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 10 مئی 2025 ء