Ek Currency Qarz mein Dekar Wapsi mein Dusri Currency Mangna

ایک کرنسی قرض دے کر دوسری کرنسی میں مطالبہ کرنا

مجیب:ابو تراب محمد علی عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:PIN-7475

تاریخ اجراء:17محرم الحرام1446ھ/24جولائی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں چند سال قبل جب سعودیہ میں تھا، تو کسی رشتہ دار نے ایک لاکھ روپے قرض مانگا، اس وقت میں نےوہاں ایجنسی کے ذریعے  2500 سعودی ریال کنورٹ کروا کر اسے ایک لاکھ روپے بھیجے تھے اور ہمارے درمیان وعدہ ہوا تھا کہ دس سال بعد قرض واپس ہوگا، اب تقریباً سات سال گزر چکے ہیں اور حالیہ ریٹ کے مطابق 2500 ریال کی رقم دو لاکھ کے قریب بن رہی ہے۔ اب مجھے اچانک رقم کی ضرورت پیش آ گئی ہے، تو اس میں ایک تو یہ پوچھنا ہے کہ مقروض پر کتنی رقم واپس کرنا ضروری ہے، 2500 ریال یا پھر ایک لاکھ روپے پاکستانی؟ نیز معاہدہ کا عرصہ پورا ہونے سے پہلے قرض کی واپسی کا مطالبہ جائز ہے؟رشتہ دار کا کہنا ہے کہ  حالات کی وجہ سے ابھی رقم واپس کرنا مشکل ہے اور جب کروں گا، تو ایک لاکھ ہی واپس کروں گا، کیونکہ آپ نے مجھے ایک لاکھ روپے ہی دئیے تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ اپنے رشتہ دار سے فقط پاکستانی ایک لاکھ روپے لینے کے حق دار ہیں، ا س سے زیادہ رقم یا پھر پاکستانی کرنسی کے بجائے سعودی ریال یا دوسری کرنسی کا مطالبہ کرنا شرعاً آپ کے لیے درست نہیں ہے،البتہ آپ دس سال سے قبل بھی قرض واپس لینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں، لیکن اگر مقروض تنگدست ہو، تو اسے مہلت دیدینا اجرِ عظیم کا سبب ہے۔

   تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ آپ  کے رشتہ دار نے جب قرض لینے کی بات کی، تو آپ نے از خود سعودی ریال تبدیل کروا کر رشتہ دار کو پاکستانی ایک لاکھ روپے بھجوائے اور پاکستانی کرنسی پر ہی رشتہ دار نے قبضہ کیا، تو اب مقروض پر فقط اتنی ہی رقم دینا لازم ہے، جس پر اس نے قبضہ کیا تھا، کیونکہ قرض کا شرعی اصول یہ ہے کہ جو چیز جس حالت میں مقروض نے وصول کی ہو، اسی کی مثل اتنی ہی چیز واپس کرنا لازم ہوتا ہے، لہذا مقروض فقط پاکستانی ایک لاکھ روپے دینے کا پابند ہے، آپ کےلیے 2500 سعودی ریال یا اس کی حالیہ قیمت کے مطابق بننے والی پاکستانی کرنسی (کم و بیش دولاکھ روپے) کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔

   نیز قرض شرعاً معجل ہوتا ہے، یعنی قرض کی واپسی کی اگرچہ کوئی میعاد مقرر کر لی جائے، تب بھی اس مدت کی پابندی لازم نہیں ہوتی، قرض خواہ جب بھی مطالبہ کرنا چاہے، کر سکتا ہے ، لہذا آپ دس سال سے قبل بھی مطالبہ کر سکتے ہیں، البتہ سوال سے واضح ہے کہ آپ دونوں کے مابین دس سال کا وعدہ ہوا تھا، تو آپ کو چاہیے کہ حتی الامکان وعدہ کی پاسداری کریں کہ وعدہ پورا  کرنے کی ترغیب قرآن کریم میں موجود ہے، یونہی کثیر روایات میں تنگدست کو مہلت دینے والے کے لئے متعدد دنیوی و اخروی فضائل بیان کیے گئے ہیں۔

قرض کی واپسی کے متعلق جزئیات:

   قرض کی تعریف تنویر الابصار میں یوں بیان کی گئی ہے: ’’عقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلی لآخر لیرد مثلہ‘‘ ترجمہ: قرض ایسا مخصوص عقد ہے جس میں ایک شخص مثلی مال دوسرے کو اس طور پر دیتا ہے کہ وہ اس کی مثل واپس لوٹائے۔(تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب البیوع، فصل فی القرض، جلد 5، صفحہ 162، مطبوعہ بیروت)

   قرض میں جو چیز دی جائے گی، اتنی ہی واپس ملے گی۔ چنانچہ شمس الائمہ امام احمد بن سہل سرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ان استقرض دانقا فلوسا او نصف درهم فلوس فرخصت او غلت لم يكن عليه الا مثل عدد الذي اخذ، لان الضمان يلزمه بالقبض والمقبوض على وجه القرض مضمون بمثله وكذلك لو قال: اقرضني دانق حنطة، فاقرضه ربع حنطة فعليه ان يرد مثله باعتبار القبض ولا معتبر بتسمية الدانق‘‘ ترجمہ: اگر کسی نے دانق ( درہم کے چھٹے حصے کی مقدار کا سکہ) یا نصف درہم قرض لیا، پھر اس کی قیمت کم یا زیادہ ہو گئی، تو قرض دار پہ اسی کی مثل چیز واپس کرنا لازم ہے، جو اس نے لی تھی، کیونکہ ذمےپہ ضمان قبضے سے لازم ہوتا ہے اور بطور قرض جتنے پہ قبضہ کیا، قبضہ کرنے والا اتنے کا ہی ضامن ہوگا، اور اسی طرح اگر کسی نے کہا: مجھے دانق سے آنے والی گندم قرض دو، قرض خواہ نے (درہم کے) چوتھائی حصے سے آنے والی گندم دیدی، تو قرض دار نے جتنی پہ قبضہ کیا اتنی ہی لوٹانی ہو گی، اس میں دانق کا ذکر معتبر نہیں ہوگا۔(مبسوط سرخسی، کتاب الصرف، باب البیع بالفلوس، جلد 14،صفحہ 30، دار المعرفہ، بیروت)

   درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:’’لو استقرض احد خمسین دیناراً عثمانیا بینما کان الدینار الواحد رائجاً بمائۃ وثمانیۃ قروش، ثم نزل سعر الدینار الی مائۃ قرش او صعد الی مائۃ و عشرین قرشاً، فیکون المستقرض مجبوراً علی اداء الخمسین الدینار المذکورۃ‘‘ ترجمہ:  کسی نے پچاس عثمانی دینار قرض لئے، اس وقت ایک دینار ایک سو آٹھ قرش کا تھا، پھر دینار کا ریٹ کم ہو کر ایک سو قرش ہو گیا یا بڑھ کر ایک سو بیس قرش ہو گیا، تو مقروض اس بات پر مجبور ہو گا کہ وہی مذکورہ دینار واپس کرے (جو اس کو دئیے گئےتھے)۔(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، جلد3، صفحہ86، دار الجبل)

   صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں مثلاً دس سیر گیہوں قرض لیے تھے اُن کی قیمت ایک روپیہ تھی اور ادا کرنے کے دن ایک روپیہ سے کم یا زیادہ ہے اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گا وہی دس سیر گیہوں دینے ہوں گے۔‘‘(بھار شریعت، حصہ11، صفحہ 757، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بلکہ اگر قرض میں واپسی پر کوئی اور چیز دینے کی شرط  لگا بھی دیں،تو وہ شرط باطل کہلائے گی۔ چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:’’لو قال: اقرضني عشرة دراهم بدينار، فاعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها ولا ينظر الى غلاء الدراهم ولا الى رخصها۔۔۔ والقرض لا يتعلق بالجائز من الشروط، فالفاسد من الشروط لا يبطله ولكن يلغو شرط رد شيء آخر فعليه ان يرد مثل المقبوض‘‘ ترجمہ: اگر کسی نے کہا کہ مجھے دس درہم ایک دینار کے بدلے قرض دو، تو اس نے دس درہم دیدئیے، تو مقروض پر اسی کی مثل دینا لازم ہیں، دراہم کے ریٹ بڑھنے یا کم ہونے کو نہیں دیکھا جائے گا۔۔۔ اور قرض کے ساتھ کوئی جائز شرط متعلق نہیں ہوتی، (جب جائز شرط متعلق نہیں ہوتی، تو شرطِ فاسد بدرجہ اولیٰ متعلق نہیں ہو گی، لہذا) شرائطِ فاسدہ عقدِ قرض کو باطل نہ کریں گی، لیکن (خود باطل ہو جائیں گی) اور دوسری چیز واپس کرنے کی شرط لغو ہو جائے گی، پس (ایسی شرط کے باوجود) مقروض پر اسی چیز کی مثل ادا کرنا لازم ہو گا، جس پر اس نے قبضہ کیا تھا۔(مبسوط سرخسی، کتاب الصرف، باب البیع بالفلوس، جلد14، صفحہ30، دار المعرفہ، بیروت)

قرض کی مدت کے متعلق جزئیات:

   قرض شرعاً معجل ہے، مدت طے کر لینے سے پابندی لازم نہیں ہوتی۔ در مختار پھر رد المحتار میں ہے :”القرض فلا یلزم تاجیلہ ای انہ یصح تاجیلہ مع کونہ غیر لازم، فللمقرض الرجوع عنہ“ ترجمہ :قرض کے لئے مدت مقرر کرنا لازم نہیں، یعنی مقرر کرنا درست ہے، لیکن یہ لازم نہیں ہو گی، لہذا قرض خواہ چاہے تو رجوع کر سکتا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب البیوع، جلد7، صفحہ402، مطبوعہ پشاور)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’قرض کے لئے شرعا کوئی میعاد نہیں، اگر مقرر بھی کی ہے اس کی پابندی نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ92، رضا فاونڈیشن، لاھور(

   بہار شریعت میں ہے: ”یاد رکھنا چاہئے کہ قرض جسے عرف میں لوگ دستگرداں کہتے ہیں، شرعا معجل ہوتا ہے، جب چاہے اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، اگرچہ ہزار عہد و پیماں و وثیقہ و تمسک کے ذریعہ سے اس میں میعاد مقرر کی ہو کہ اتنی مدت کے بعد دیا جائے گا، اگرچہ یہ لکھ دیا ہو کہ اس میعاد سے پہلے مطالبہ کا اختیار نہ ہو گا، اگر مطالبہ کرے، تو باطل و نا مسموع ہو گا، کہ سب شرطیں باطل ہیں، اور قرض دینے والے کو ہر وقت مطالبہ کا اختیار ہے۔‘‘(بھار شریعت، حصہ5، صفحہ 926،927، مکتبہ المدینہ، کراچی(

وعدہ پورا کرنے اور مقروض کو مہلت دینے کی ترغیبات:

   وعدہ کی پاسداری کے متعلق  اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :﴿وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ            اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا﴾ ترجمہ کنز العرفان:’’ اور عہد پورا کرو، بیشک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘(پارہ15، سورۃ بنی اسرائیل، آیت34)

   مقروض کو مہلت/ چُھوٹ دینے کے متعلق  اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے:﴿وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴾ ترجمہ کنز العرفان:’’اور اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو اور تمہارا قرض کو صدقہ کر دینا تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اگر تم جان لو۔‘‘(پارہ3، سورۃ البقرہ، آیت280)

   مہلت دینے والے کو عرشِ الٰہی کا سایہ نصیب ہو گا۔ چنانچہ  حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’من انظر معسرا او وضع له، اظله الله يوم القيامة تحت ظل عرشه يوم لا ظل الا ظله‘‘ ترجمہ: جو تنگدست کو مہلت دے یا اسے کچھ چھوڑ دے، اللہ عزوجل اسے روزِ قیامت اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔(جامع ترمذی، ابواب البیوع، جلد2، صفحہ590، مطبوعہ بیروت)

   یونہی قرض خواہ کو روزانہ صدقہ دینے کا ثواب ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے: ’’من أنظر معسرا، فله بكل يوم صدقة، قبل أن يحل الدين، فإذا حل الدين، فأنظره بعد ذلك فله بكل يوم مثله صدقة‘‘ ترجمہ: جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی اس کے لئے مہلت ختم ہونے تک روزانہ اتنا صدقہ کرنا کا ثواب ہے اور پھر اگر قرض کی وصولی کے دن مزید مہلت دے، تو اس کے لئے دُگنا صدقہ کرنے کا ثواب ہے۔(المستدرک للحاکم، کتاب البیوع، جلد 2، صفحہ 34، مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم