کیا فکس ڈپازٹ پر اضافی رقم لے سکتے ہیں؟

فکس ڈیپازٹ میں رقم جمع کروا کر اضافہ لینے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ فکس ڈیپازٹ میں پیسہ رکھا جاتا ہے، پھر اس پر کچھ سالوں کے بعد اضافہ ملتا ہے وہ اضافہ ہمارے لئے جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مسلمانوں کے بینک یا جس میں کسی مسلمان کا شیئر ہو، اس میں فکس ڈیپازٹ کے طورپر رقم ر کھوانا، جائز نہیں ہے اور اس طورپر رقم رکھوانے کی صورت میں جو اضافہ ملتا ہے، وہ حقیقتاً سود ہے، کیوں کہ فکس ڈیپازٹ میں جمع کروائی گئی رقم کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے کہ اصل مال محفوظ رہتا ہے اور اس پر مشروط فکس نفع ملتا ہے یعنی گویا بینک والے یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ: "آپ ہمیں اتنے روپے بطورِ قرض دو، آپ کی اصل رقم محفوظ رہے گی، جو اتنی مدت بعد آپ کو مل جائے گی اور ہم اس پر اتنی مدت کے بعد آپ کو اتنا نفع دیں گے۔"

اور قرض پر حاصل ہونے والا مشروط نفع سود ہوتا ہے، جس کا لینا، دینا، ناجائز و گناہ ہوتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر وہ بینک مسلمانوں کا ہے یا اس میں کسی مسلمان کو شیئر بھی ہے تو آپ کو جو اضافی رقم ملی ہے، وہ سود ہونے کی وجہ سے آپ کے لئے حلال نہیں اور ایسی جگہ فکس ڈیپازٹ کے طورپر رقم رکھنا بھی جائز نہیں۔

یہ بات یادرہے کہ قرض ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ قرض کا لفظ ہی استعمال کیا جائے، بلکہ اگر قرض کا لفظ استعمال نہ کیا لیکن مقصود وہی ہے جو قرض سے ہوتا ہے تووہ قرض ہی ہوگا، کیونکہ عقود میں اعتبارمعانی کا ہوتا ہے۔ بدائع الصنائع میں ہے

إذا لم یمکن تصحیحہا مضاربۃ تصح قرضا لأنہ أتی بمعنی القرض و العبرۃ فی العقود لمعانیہا

ترجمہ: جب اس کو مضاربت نہیں بناسکتے ہیں تووہ قرض ہوجائے گا کیونکہ یہ قرض کے معنی میں ہے اور عقود میں ان کے معانی کا اعتبار ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، ج 6، ص 86، دار الکتب العلمیۃ)

اور قرض کی تعریف تنویرالابصارمیں یوں بیان کی گئی ہے

ھو عقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلی لآخرلیرد مثلہ

ترجمہ: قرض وہ عقد مخصوص ہے جس میں مثلی مال دیا جاتا ہے اس لئے کہ اس کامثل واپس کیا جائے۔ (درمختارمع رد المحتار، ج 7، ص 406 -07، کوئٹہ)

حدیث پاک میں ہے

کل قرض جر منفعۃ فہو ربا

ترجمہ: رسول اللہ عز و جل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہر وہ قرض جونفع کھینچے تووہ سود ہے۔ (مسند الحارث، ج 1، ص 500، مرکز خدمۃ السنۃ و السیرۃ النبویۃ، المدینۃ المنورۃ)

رد المحتار میں ہے

کل قرضٍ جرّ نفعا حرام ای اذا کان مشروطاً

ترجمہ: ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ حرام ہے یعنی جب کہ وہ نفع مشروط ہو۔ (رد المحتار، جلد 5، صفحہ 166، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4110

تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر 1447ھ / 08 اگست 2025ء